جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے
Appearance
جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے
نہیں ہے خواب سے بہتر کچھ ارمغاں کے لیے
تمام علت درماندگی ہے قلت شوق
تپش ہوئی پر پرواز مرغ جاں کے لیے
شریک بلبل و قمری ہیں وہ زبوں فطرت
جو بے قرار رہے سیر گلستاں کے لیے
امید ہے کہ نباہیں گے امتحاں لے کر
جو اس قدر متقاضی ہیں امتحاں کے لیے
نہ خاکیوں سے تعلق نہ قدسیوں سے ربط
نہ ہم زمیں کے لیے ہیں نہ آسماں کے لیے
پیام دوست ہوا قاصدوں کو وجہ شرف
نسیم مصر سے عزت ہے کارواں کے لیے
قفس زمانہ و جاں مرغ و آشیاں ملکوت
قفس میں مرغ ہے بیتاب آشیاں کے لیے
فسانے یوں محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے
ہماری نظم میں ہے شیفتہؔ وہ کیفیت
کہ کچھ رہی نہ حقیقت مئے مغاں کے لیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |