جُو پھرا کہ اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا
Appearance
جُو پھرا کہ اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا
ادھر آسمان الٹا ادھر آفتاب الٹا
نہ قفس میں ایسے مُجھ کو تُو اسیر کیجو صیاد
کے گھڑی گھڑی وُہ ہووے دم اضطراب الٹا
میرے حال پر مغاں نے یہ کرم کیا کے ہنس ہنس
میرے ننگے سر پہ رکھا قدح شراب الٹا
تیرا تشنہ لب جہاں سے جُو گیا لحد پہ اس کی
پس مرگ بھی کسی نے نہ سبوے آب الٹا
میری آہ نے جو کھولی یہ قشون اشک بیرق
وہیں برق و رعد لے کر علم سحاب الٹا
جُو خیال میں کسو کہ شب ہجر سو گیا ہو
نہ ہو صبح کو الٰہی کبھی اس کا خواب الٹا
میرے دم الٹنے کی جُو خبر اس کو دی کسی نے
وہیں نیم رہ سے قاصد بہ صد اضطراب الٹا
جُو علی کا حکم نافذ نہ فلک پہ تھا تُو پھر کیوں
بہ گہہ غروب آیا نکل آفتاب الٹا
اگر اس میں تُو سہ غزلہ جُو کہے تُو کام بھی ہے
نہیں مصحفیؔ مزہ کیا جُو دو رو کباب الٹا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |