جگر سوختہ ہیں اور دل بریاں ہیں ہم
Appearance
جگر سوختہ ہیں اور دل بریاں ہیں ہم
شعلہ کی طرح سدا دیدۂ گریاں ہیں ہم
متصل لخت جگر کرتے ہیں آنکھوں سے سدا
آہ کس عاشق غم دیدہ کی مژگاں ہیں ہم
کبھی ہنستے ہیں کبھی روتے ہیں جلتے ہیں کبھی
گل ہیں شبنم ہیں کہ یا آتش سوزاں ہیں ہم
ہم میں ہی عالم اکبر ہوئے گو جرم صغیر
مظہر جلوۂ حق حضرت انساں ہیں ہم
دہر پر شور ہے ہاتھوں سے ہمارے اے آہ
آفرینش میں مگر نالہ و افغاں ہیں ہم
فکر جمعیت دل ہم کو کہاں آہ حسنؔ
خاطر آشفتۂ گیسوئے پریشاں ہیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |