جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
لبالب اپنے لہو کا پیالہ کیا کرتا
ملا نہ سرو کو کچھ اپنی راستی میں پھل
کلاہ کج جو نہ کرتا تو لالہ کیا کرتا
جریدہ میں رہ پر خون عشق سے گزرا
جرس سے قافلہ میں بحث نالہ کیا کرتا
جنون عشق میں رہنا تھا امتیاز نہ کچھ
چکور طوق گلو مہ کا ہالہ کیا کرتا
بچا کیا اسے توڑا جو سر سے دریا کے
حباب لے کے یہ خالی پیالہ کیا کرتا
نہ کھایا غصہ کبھی خوانچہ سے قسمت کے
پھنسے جو حلق میں میں وہ نوالہ کیا کرتا
بلائے بد ہوئی داغوں سے سردیٔ کافور
سلوک نیک زراعت سے ژالہ کیا کرتا
دیا نوشتہ نہ اس بت کو دل کے تودے میں
خدا کے گھر کا بھلا میں قبالہ کیا کرتا
صفا ہوا نہ ریاضت سے نفس امارہ
کوئی نجاست سگ کا ازالہ کیا کرتا
لگی ہے آگ جو کمبل کبھی اڑایا ہے
ترے برہنہ سے گرمی دوشالہ کیا کرتا
نہ کرتی عقل اگر مفت آسماں کی سیر
کوئی یہ ساتھ ورق کا رسالہ کیا کرتا
مری طرف جو انہیں کھینچتی کشش دل کی
بتوں کو برہمنوں کا حوالہ کیا کرتا
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
عروس دہر سے بوئے وفا نہیں آتی
بھلا جگر کا میں اس کے ازالہ کیا کرتا
مہ دو ہفتہ بھی ہوتا تو لطف تھا آتشؔ
اکیلے پی کے شراب دو سالہ کیا کرتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |