Jump to content

جھمکے

From Wikisource
جھمکے (1956)
by سعادت حسن منٹو
325037جھمکے1956سعادت حسن منٹو

سُنار کی اُنگلیاں جھمکوں کو برش سے پالش کر رہی ہیں جھمکے چمکنے لگتے ہیں ستار کے پاس ہی ایک آدمی بیٹھا ہے جھمکوں کی چمک دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما اُٹھتی ہیں بڑی بے تابی سے وہ اپنے ہاتھ ان جھمکوں کی طرف بڑھاتا ہے اور سُنار کہتا ہے ’’ بس اب رہنے دو مجھے‘‘ سُنار اپنے گاہک کو اپنی ٹُوٹی ہوئی عینک میں سے دیکھتا ہے اور مسکرا کرکہتا ہے ’’چھ مہینے سے الماری میں بنے پڑے تھے آج آئے ہو تو کہتے ہو کہ ہاتھوں پر سرسوں جما دُوں۔‘‘

گاہک جس کا نام چرنجی ہے کچھ شرمندہ ہو کر کہتا ہے ’’کیا بتاؤں لالہ کروڑی مل۔ اتنی رقم جمع ہونے میں آتی ہی نہیں تھی تم سے الگ شرمندہ جورو سے الگ شرمندہ عجب آفت میں جان پھنسی ہوئی تھی۔ جانے اس سونے میں کیا کشش ہے کہ عورتیں اس پر جان دیتی ہیں۔‘‘

سُنار پالش کرنے کے بعد جھمکے بڑی صفائی سے کاغذ میں لپیٹتا ہے اور چرنجی کے ہاتھوں میں رکھ دیتا ہے۔ چرنجی کا غذ کھول کر جھمکے نکالتا ہے جب وہ جھُمر جھمر کرتے ہیں تو وہ مسکراتا ہے۔ بھئی کیا کاریگری کی ہے لالہ کروڑی مل۔ دیکھے گی تو پھڑک اُٹھے گی۔ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالتا ہے اور سُنار سے یہ کہہ کر ’’کھرے کر لو بھائی‘‘ دکان سے باہر نکلتا ہے۔

دکان کے باہر ایک تانگہ کھڑا ہے گھوڑا ہنہناتا ہے تو چرنجی اس کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے ‘‘تمھیں بھی دو جھمکے بنوا دُوں گا میری جان فکر مت کرو‘‘ یہ کہہ کر وہ خوش خوش گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے ’’ چل میری جان ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے‘‘

چرنجی خوش خوش اپنے طویلے پہنچتا ہے دھیمے دھیمے سروں میں کوئی گیت گنگناتا اور یُوں اپنی خوشی کا اظہارکرتا وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا اور کہتا ہے:

’’ابھی چھٹی نہیں ملے گی میری جان تیری مالکن یہ جھُمکے پہن کر کیا باغ کی سیر کو نہیں جائے گی۔‘‘

چرنجی جلدی جلدی گھر کا زینہ طے کرتا ہے اور زور سے آواز دیتا ہے۔ مُنی مُنی ایک چھوٹی سی لڑکی بھاگتی ہوئی اندر سے نکلتی ہے اور چرنجی کے ساتھ لپٹ جاتی ہے چرنجی جھمکے نکال کر اس کی کان کی لوؤں کے ساتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے ‘‘ماں کہاں ہے تیری۔ جواب کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کے سارے کمروں میں ہاتھ میں جھمکے لیے پھرتا ہے مُنی کی ماں۔ مُنی کی ماں کہتا۔ لڑکی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے ’’ مُنی ماں کہاں ہے تیری۔ لڑکی جواب دیتی ہے۔ وہاں گئی ہے: لڑکی کا اشارہ سامنے بلڈنگ کی طرف تھا۔ چرنجی اُدھر دیکھتا ہے کھڑکی کے شیشوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت کا سایہ نظر آتا ہے مرد عورت کے کانوں میں بُندے پہنا رہا ہے لمبے لمبے بُندے یہ منظر دیکھ کر چرنجی کے منہ سے دبی ہوئی چیخ سی نکلتی ہے وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی ننھی بچی کو اُٹھا کر سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بچی اس خوفناک سائے کو دیکھے سینے کے ساتھ اس طرح اپنی بچی کو بھینچے وہ آہستہ آہستہ نیچے اُترتا ہے وہ جھمکے جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اس کے ہاتھوں سے فرش پر گر پڑتے ہیں۔

نیچے طویلے میں آ کر وہ اپنی بچی کو جو کہ سخت پریشان ہو رہی ہے تانگے میں بٹھاتا ہے اور خود گھوڑے کی باگیں تھام کر تانگے کو باہر نکالتا ہے۔

چرنجی بالکل خاموش ہے جیسے اسے سانپ سُونگھ گیا ہے اُس کی ننھی بچی سہمے ہُوئے لہجے میں بار بار پوچھتی ہے ’’ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پِتا جی ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پتا جی۔؟‘‘

چرنجی کی بیوی اپنے گھر واپس آگئی ہے اور ایک آئینہ سامنے رکھے اپنے جھمکوں کو پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے اور گارہی ہے۔ آئینہ دیکھتے دیکھتے وہ اپنی بچی کو آواز دیتی ہے مُنی ادھر آ تجھے ایک چیز دکھاؤں کوئی جواب نہیں ملتا کہاں چلی گئی تو۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھتی ہے اور اِدھر اُدھر اُسے ڈھونڈتی ہے جب وہ نہیں ملتی تو باہر نکلتی ہے سیڑھیوں کے اختتامی سرے پر جو چبوترہ سا بنا ہے اس پر کھلے ہوئے کاغذ میں دو جھمکے دکھائی دیتے ہیں چرنجی کی بیوی ان کو اُٹھاتی ہے ایک دم اسے خوفناک حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ اِن جھمکوں کو مٹھی میں بھینچ کر وہ چیختی ہے۔ اسے معلوم ہوگیا ہے سب کچھ معلوم ہوگیا ہے دیوانوں کی طرح دوڑی دوڑی اندر جاتی ہے سب کمروں میں پاگلوں کی طرح چکراتی ہے اور مُنی کو آوازیں دیتی ہے جب اس کے دماغ کا طوفان کچھ کم ہوتا ہے تو وہ وہیں بیٹھ جاتی ہے جہاں پہلے بیٹھی تھی۔ سامنے اس کے سامنے آئینہ پڑا ہے اس میں وہ غیر ارادی طور پر اپنی شکل دیکھتی ہے۔ پرنجی کی بیوی جب اپنی شکل اس زاویے میں دیکھتی ہے تو اس سے متنفر ہو کر آئینہ اُٹھاتی ہے اور زمین پر پٹک دیتی ہے آئینہ چکنا چور ہوجاتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی باہر نکلتی ہے۔

سامنے والی بلڈنگ کا ایک کمرہ یہ کمرہ پُرتکلف طریقے سے سجا ہوا ہے ایک لڑکی اور ایک لڑکا جس کی عُمر میں تقریباً دو برس کا فرق ہے لڑکی چھ برس کی اور لڑکا آٹھ برس کا ہے دونوں اپنے باپ کے پاس بیٹھے ہیں اور اس سے کھیل رہے ہیں اتنے میں دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوتی ہے پہلی بار جب دستک ہوتی ہے تو بچوں کا باپ نہیں سنتا۔ جب دوسری بار پھر ہوتی ہے تو وہ چونکتا ہے بچوں کی طرف دیکھتا ہے پھر ان کی آیا کی طرف اور کہتا ہے ان کو باہر لے جاؤ۔ کوئی میرا ملنے والا آیا ہےٗ جلدی جلدی بچوں کو نکال کر دروازہ بند کرتا ہے دوسرے دروازے کی طرف بڑھتا ہے جب دروازہ کھلتا ہے تو چرنجی کی بیوی اندر داخل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بچوں کے باپ کو سخت حیرت ہوتی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’’ تم تو کہہ رہی تھیں مجھے جلدی گھر جانا ہے اب واپس کیسے آگئیں۔ چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی۔ ساکت جامد کھڑی رہتی ہے اُس کو خاموش دیکھ کر وہ پھر اُس سے پوچھتا ہے ‘‘وہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔‘‘

چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی وہ پھر اس سے سوال کرتا ہے۔ تم خاموش کیوں ہو۔ جُھمکے پسند نہیں آئے۔ چرنجی کی بیوی کے ہونٹ کھلتے ہیں۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے کیوں نہیں آئے۔ بہت پسند آئے۔ کیا اور لا دو گے مجھے۔ ؟ بچوں کا باپ مسکراتا ہے جتنے کہو ٗ بس یہی بات تھی ’’بڑے تلخ لہجے میں چرنجی کی بیوی کہتی ہے بس یہی بات تھی لیکن مجھے صرف جھُمکے ہی نہیں چاہئیں ناک کے لیے کیل۔ ہاتھوں کے لیے کنگنیاں کڑے گلے کے لیے ہار ٗ ماتھے کے لیے جھومر پاؤں کے لیے پازیب مجھے اتنے زیور چاہئیں کہ میرا پاپ ان کے بوجھ تلے دب جائے اپنی عصمت کا زیور تو اُتار چکی ہُوں اب یہ گہنے نہ پہنوں گی تو لوگ کیا کہیں گے۔ بچوں کا باپ یہ گفتگو سن کر سخت متحیر ہوتا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہ چرنجی کی بیوی سے کہتا ہے۔ یہ تو کیا بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔ چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔ بہکی پہلے تھے اب تو ہوش کی باتیں کر رہی ہوں سنو۔ میں تمہارے پاس اس لیے آئی ہوں کہ وہ چلا گیا ہے میری بچی کو بھی ساتھ لے گیا ہے اُسے سب کچھ معلوم ہو چکا ہے اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا جس طرح میری لٹی ہوئی آبرو واپس نہیں آئے گی بولو مجھے پناہ دیتے ہو میں تمھیں اس پاپ کا واسطہ دے کر اِلتجا کرتی ہوں کہ جو تم نے اور میں نے مل کر لیا ہے کہ مجھے پناہ دو بچوں کا باپ چرنجی کی بیوی کی سب التجائیں سنتا ہے مگر وہ کیسے اس عورت کو پناہ دے سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو جھُمکے کے بدلے بیچا۔ ایک سودا تھا جو ختم ہوگیا چرنجی کی بیوی کو یہ سُن کر بہت صدمہ ہوتا ہے ناکام اور مایوس ہو کر وہ چلی جاتی ہے۔

چرنجی اب ایک نئے گھر میں ہے رات کا وقت ہے۔ وہ اپنی بچی مُنی کو سُلانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ سوتی نہیں بار بار اپنی ماں کے بارے میں پوچھتی ہے چرنجی اس کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے مگر بچی کی معصوم باتیں اُسے پریشان کر دیتی ہیں آخر میں گھبرا کر اُس کے منہ سے یہ نکلتا ہے’’ مُنی تمہاری ماتا جی مر گئی ہیں راستہ بھول کر وہ ایسی جگہ چلی گئی ہیں جہاں سے واپس آنا بڑا مشکل ہوتا ہے دروازہ کھلتا ہے۔ چرنجی فوراً منی کا چہرہ کمبل سے ڈھانپ دیتا ہے چرنجی کی بیوی داخل ہوتی ہے چرنجی اُٹھتا ہے اور اسے باہر دھکیل کر اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیتا ہے ’’چلی جاؤ یہاں سے ‘‘ وہ اُس سے کہتا ہے چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔ ’’چلی جاتی ہوں میری بچی مجھے دیدو‘‘ چرنجی غصے اور نفرت بھرے لہجے میں اُس سے کہتا ہے وہ عورت جو مرد کی بیوی نہیں بن سکتی اولاد کی ماں کیسے ہوسکتی ہے اپنے پاپ بھرے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہو کیا تمھیں منی کی ماں کہلانے کا حق حاصل ہے کیا اس دن کے بعد جب تم نے یہ جھمکے لے کر ایک غیر مرد تو ہاتھ لگانے دیا تم اپنی اولاد کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر سکتی ہو کیا تمہاری مامتا اُس دن جل کر راکھ نہیں ہوگئی تھی جب تمہارے قدم ڈگمگائے تھے اپنی بچی لینے آئی ہو وہ جھمکے پہن کر جنہوں نے تمہاری زندگی کے سب سے قیمتی زیور کو اُتار کر گندی موری میں پھینک دیا ہے۔ میں یہ پوچھتا ہوں جب یہ جھمکے ہلتے ہیں تو تمہارے کانوں میں یہ آواز نہیں آتی کہ نہ تم ماں رہی ہو نہ بیوی۔ جاؤ تمہاری مانگ سیندور سے اور تمہاری گود اولاد سے ہمیشہ خالی رہے گی جن قدموں سے آئی ہو انہی قدموں سے واپس چلی جاؤ۔ چرنجی اپنی بیوی کی التجاؤں کو ٹھکرا دیتا ہے تو وہ چلی جاتی ہے افسردہ اور خاموش۔

تانگے کا پہیہ گھوم رہا ہے یہ بتانے کے لیے کہ وقت گزر رہا ہے اور کئی سال بیت رہے ہیں تانگے کا پہیہ مڑتا ہے اور بڑے دروازے میں داخل ہوتا ہے یہ دروازہ گورنمنٹ کالج کا ہے جس میں کئی لڑکے اور لڑکیاں گزر رہی ہیں تانگہ کالج کے کمپاؤنڈ میں ٹھہرتا ہے چرنجی اب کافی بڈھا ہو چکا ہے۔ تقریباً آدھے بال سفید ہیں۔ اس کی ننھی بچی اب جوان ہے تانگے کی پچھلی نشست پر سے جب اُٹھتی ہے تو چرنجی اس کو بہت نصیحتیں کرتا ہے۔ بڑے صاحب کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کہنا جو سوال پوچھیں ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔ وغیرہ وغیرہ لڑکی اپنے باپ کی ان باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے اور اچھا اچھا کہتی وہاں سے چلتی ہے لیکن فوراً ہی چرنجی اس کو روکتا ہے اور جیب سے برفی نکال کر اس کو دیتا ہے اور کہتا ہے۔ پہلا دن ہے منہ میٹھا کر لو زبردستی وہ اپنی لڑکی کے ہاتھ میں برفی رکھ دیتا ہے۔

سامنے کالج کے برآمدے میں دو تین لڑکے کھڑے ہیں جو آنے جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو گھور رہے ہیں جب کرشنا کماری (چرنجی کی بیٹی) برآمدے کی طرف آتی ہے تو ایک لڑکا جس کا نام جگدیش ہے اپنے ساتھی کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھونکا دیتاہے اور کہتا ہے۔

’’لو بھئی ایک فرسٹ کلاس چیز آئی ہے۔ طبیعت صاف ہو جائے گی تمہاری۔ یہ کہہ کر جب وہ کرشنا کماری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اُس کے دوست سب اُدھر متوجہ ہوتے ہیں مگر انھیں بجائے ایک دیہاتی لڑکا نظر آتا ہے جو بڑا انہماک سے اپنے فارم کا مطالعہ کرتا ہوا ان کی طرف چلا آرہا ہے سب لڑکے اس دیہاتی کو دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھئی کیا چیز ہے طبیعت واقعی صاف ہوگئی۔ کرشنا کماری اس دوران میں ایک طرف ہوگئی تھی۔ یہ دیہاتی لڑکا جس کا نام کرشن کمار ہے کا لج کے اِن پرانے شریر طالبعلموں کی طرف بڑھتا ہے جگدیش سے وہ بڑے سادہ لہجے میں پوچھتا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے جگدیش ذرا پیچھے ہٹ کر اسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے چڑیا گھر۔‘‘ کرشن کمار اسی طرح سادہ لوحی سے جواب دیتا ہے جی نہیں چڑیا گھر میں کل جاؤں گا میں یہاں داخل ہونے آیا ہوں۔ سب لڑکے بے چارے کرشن کمار کا مذاق اُڑاتے ہیں اُسے چھیڑتے ہیں اتنے میں ایک لڑکی کرشنا کماری کو ساتھ لیے ان لڑکوں کے پاس آتی ہے اور ان میں سے ایک لڑکے کو جس کا نام ستیش ہے مخاطب کر کے کہتی ہے ستیش میرا پیریڈ خالی نہیں تم انھیں بتا دو کہ کہاں داخلہ ہو رہا ہے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دے کر وہ تیز قدمی سے چلی جاتی ہے ستیش فارم دیکھتا ہے اور کہتا ہے آپ کا نام کرشنا کماری ہے۔ کرشن کمار بول اُٹھتا ہے جی نہیں میرا نام کرشن کمار ہے سب ہنستے ہیں ستیش کرشن کمار کا فارم بھی لے لیتا ہے اور دونوں سے کہتا ہے آئیے کمار اور کماری صاحبہ میں آپ کو راستہ بتا دوں سب چلتے ہیں۔

اس کمرے کے باہر جہاں داخلہ ہو رہا ہے ستیش ٹھہر جاتا ہے اور ایک فارم کرشن کمار اور دوسرا کرشنا کو دے کر کہتا ہے۔ ’’اندر چلے جائیں۔‘‘

کرشن کماری اور کرشنا کمار دونوں اندر داخل ہوتے ہیں کرشن کمار ایک میز کی طرف بڑھتا ہے کرشن کماری دوسرے میز کی طرف اِدھر کرشنا کماری کا انٹرویو شروع ہوتا ہے اُدھر کرشن کمار کا۔ کرشن کماری کا نام پڑھ کر پروفیسر کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتے ہیں۔ کشتی لڑتے ہیں ، گولہ پھینکتے ہیں۔

ادھر دوسرا پروفیسر کرشن کمار سے کہتا ہے ’’ آپ کو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائی کے کام کا شوق ہے کرشن کمار اور کرشنا حیران رہ جاتے ہیں کرشن کماری پروفیسر سے کہتی ہے جی نہیں مجھے تو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائیوں کا شوق ہے اُدھر کرشن کمار پریشان ہو کر پروفیسر سے کہتا ہے جی نہیں مجھے تو کبڈی کھیلنے گولہ پھینکنے اور کشتی لڑنے کا شوق ہے دونوں کے فارم تبدیل ہوگئے تھے ہال میں قہقہے بلند ہوتے ہیں ہال کی کھڑکیوں کے باہر جگدیش اور ستیش اور ان کی پارٹی کھڑی یہ سب تماشا دیکھتی رہتی ہے۔

بازار میں تانگہ کھڑا ہے چرنجی اس کو صاف کر رہا ہے اتنے میں ایک پٹھان آتا ہے اور چرنجی سے ان دو سو روپوں کا تقاضہ شروع کر دیتا ہے جو اُس نے قرض لے رکھے ہیں پٹھان روز روز کے وعدوں سے تنگ آیا ہوا ہے چنانچہ وہ چرنجی سے بڑے دُرشت لہجے میں باتیں کرتا ہے چرنجی پٹھان سے معافی مانگتا ہے اور کہتا کہ وہ بہت جلد اس کا قرضہ ادا کر دے گا پٹھان چرنجی سے کہتا ہے کہ وہ تانگہ گھوڑا بیچ کر قرض ادا کر دے گا اس سے چرنجی کو صدمہ ہوتا ہے تانگہ گھوڑا وہ کبھی بیچنے کے لیے تیار نہیں اس لیے کہ وہ اسے بہت عزیز ہے اتنے میں کرشنا کماری کی آواز آتی ہے ’’ پتا جی ‘‘ میری کتابیں آپ ساتھ لے گئے ہیں نا چرنجی اپنی لڑکی جواب دیتا ہے۔ ہاں بیٹی لے آیا ہوں اپنے ساتھ یہ کہہ کر وہ پٹھان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے خان میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے میری لڑکی کے سامنے اپنے روپوں کا تقاضہ نہ کرنا خان کا دل کچھ پسیجتا ہے چنانچہ جب کرشن کماری آتی ہے اور تانگے میں بیٹھتی ہے تو چرنجی سے کچھ نہیں کہتا ٗ خان کو سلام کر کے چرنجی تانگہ چلاتا ہے۔

دیہاتی لڑکے کرشن کمار کا مذاق اُڑایا جارہا ہے ، جگدیش نے اس کے پرانی وضح کے کوٹ کے ساتھ فرسٹ ائیر فول کی چٹ لگا رکھی ہے جدھر سے وہ بے چارہ گزرتا ہے لڑکے اُس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں کرشن کمار جب سب کو ہنستے دیکھتا ہے تو خود بھی ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔

اس دوران میں چرنجی کا تانگہ اور ایک موٹر آتی ہے اس میں سے ستیش اور اس کی بہن آ نکلتی ہے یہ وہ لڑکی ہے جس نے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دیا تھا ٗ کرشن کماری جب ستیش کی بہن نرملا کو دیکھتی ہے تو اُن کو نمستے کرتی ہے نرملا نمستے کا جواب دیتی ہے اور اپنے بھائی کا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے یہ میرے بھائی ستیش ہیں مگر آپ کی ایک بار پہلے ملاقات ہو چکی ہے ستیش کرشنا کماری کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتی ہیں، کشتی لڑتی ہیں اور گولہ پھینکتی ہیں ، کرشنا کماری اس روزکا واقعہ یاد کر کے شرما جاتی ہے مگر ساتھ ہی ہنس پڑتی ہے تینوں کالج کی طرف بڑھتے ہیں کچھ دُور جاتے ہیں تو ایک شور سُنائی دیتا ہے۔

جُگدیش اور اُس کے ساتھیوں نے کرشن کمار کو کیچڑ بھرے گڑھے میں دھکا دیکر گرا دیا تھا کیچڑ میں بے چارہ لت پت ہے لڑکے چھیڑ رہے ہیں جگدیش آگے بڑھ کر جب اُسے اُٹھانے لگتا ہے تو اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے کرشن کمار سے اب برداشت نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کوٹ اسے بے حد عزیز ہے یہ اُس کے مرحوم باپ کا تھا جو اُس کی ماں نے سنبھال کر اُس کے لیے رکھا ہوا تھا جب اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے تو وہ دیوانوں کی طرح اُٹھتا ہے اور جُگدیشن کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے کالج میں جُگدیشن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ بہت لڑاکا ہے کوئی اس کے مقابل میں نہیں ٹھہر سکتا مگر جب کرشن کمار اسے بری طرح لتاڑتا ہے تو سب لڑکے حیران رہ جاتے ہیں اور جُگدیش اور کرشن کمار دونوں کشتی لڑتے لڑتے ستیش کرشنا کماری اور نرملا کے پاس آ جاتے ہیں تو زبردست گھونسہ مار کر جب کرشن کمار جُگدیش کو گراتا ہے تو بے اختیار کرشنا کماری کے منہ سے نکلتا ہے ’’یہ کیا وحشیانہ پن ہے‘‘ کرشن کمار یہ آواز سنتا ہے اور اپنا ہاتھ روک لیتا ہے ستیش جُگدیشن کو اُٹھا کر ایک طرف لے جاتا ہے اتنے میں گھنٹی بجتی ہے سب لوگ چلے جاتے ہیں صرف کرشن کمار۔ کرشنا کماری اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں چند لمحات خاموش کھڑے رہتے ہیں آخر میں کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں کرشنا کماری سے کہتا ہے ’’مجھے معاف کر دو۔ آئندہ مجھ سے کبھی ایسی وحشیانہ حرکت نہیں ہوگی‘‘ کرشنا کماری اس کی سادگی سے بہت متاثر ہوتی ہے جب وہ اس سے کہتا ہے میں کسی سے کچھ نہیں کہتا ٗ لیکن یہ لڑکے میری طرف دیکھ دیکھ کر کیوں ہنستے ہیں۔ کیوں چھیڑتے ہیں کیوں تنگ کرتے ہیں۔ مجھے کیچڑ میں لت پت کر دیا ہے۔ یہ میرا کوٹ پھاڑ دیا ہے۔ جو میرے باپ کا ہے۔

کرشنا کماری اُس سے ہمدردی کرتی ہے اور اُسے بتاتی ہے کہ لڑکے اس کو صرف اس لیے چھیڑتے ہیں کہ اس کا لباس پرانی وضح کا ہے۔ اگر وہ اس طرح کا لباس پہننا شروع کر دے جیسا کہ دوسرے پہنتے ہیں تو اسے کوئی نہیں ستائے گا۔

کرشنا کماری کی باتیں کرشن کمار کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں جُگدیش اور اُس کے ساتھی جھاڑیوں کے پیچھے سے ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ لیتے ہیں۔

ہوسٹل کرشن کمار اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا ہے اور سُوٹ کا معائنہ کررہا ہے اس دوران میں وہ ایک گانا گاتا ہے بڑے جذبات بھرے انداز میں، اُس کے گانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کے عشق میں گرفتار ہوگیا ہے۔

ساتھ والے کمرے میں جُگدیش ڈنٹر پیل رہا ہے اور ڈسیل پھیر رہا ہے جب اُسے گانے کی آواز آتی ہے تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلتا ہے اور یہ معلوم کرتا ہے کہ ساتھ والے کمرے میں کوئی گا رہا ہے باہر نکلتا ہے اور کمرے کے دروازے پر دستک دیتا ہے اندر سے آواز آتی ہے آ جاؤ۔ ’’جُگدیش دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ کرشن کمار نیا سوٹ پہنے کھڑا ہے جب دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو کرشن کمار کہتا ہے۔ آپ لڑنے آئے ہیں تو مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائیے کیونکہ میں اب کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا جُگدیش مسکراتا ہے اور اپنے تیل لگے بدن کی طرف دیکھتا ہے نہیں نہیں میں لڑنے نہیں آیا صلح کرنے آیا ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ بڑھاتا ہے جسے کرشن کمار قبول کر لیتا ہے اس کے بعد جگدیش اس کے گانے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے دوست ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل کو لگی ہے آواز میں بہت درد ایسے ہی پیدا نہیں ہوا ضرور کسی کی ترچھی نظر نے تمھیں گھائل کیا ہے۔ کرشن کمار بہت سادہ لوح ہے فوراً ہی اپنے دل کا راز جگدیش کو بتا دیتا ہے’’ اب تم نے دوست کہا ہے تو تم سے پردہ اُس لڑکی کرشنا کماری نے ایسی پیاری پیاری باتیں کی ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے دل کو کیا ہوگیا ہے بڑی شریف اور بڑی ہمدرد لڑکی ہے اُس نے مجھے بتایا کہ تم لوگ مجھے کیوں چھیڑتے ہو اب دیکھ لو اُس کے کہنے پر میں نے تین سُوٹ بنوا لیے ہیں۔ جُگدیش اس کا ہمراز بن جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے تمھیں عشق ہو گیا ہے سمجھے یعنی تمہارا دل جو ہے نا وہ اس لڑکی پر آگیا ہے اب تمھیں یہ چاہئیے کہ تم اس لڑکی پر اپنے عشق کا اظہار کر دو اگر تم نے اپنی محبت کو اپنے پہلو میں دبائے رکھا تو اسے زنگ لگ جائے گا اور دیکھو عورت کو اپنی طرف مائل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ تم اُسے کوئی تحفہ دو انگوٹھی بُندے جھمکے کچھ بھی۔ سادہ لوح کرشن کمار جگدیش کی یہ سب باتیں اپنے پلے باندھ لیتا ہے۔

کالج کے باغیچے میں کرشنا کماری ایک بنچ پر بیٹھی ہے کرشن کمار آہستہ آہستہ اُس کے پاس جاتا ہے جس طرح جگدیش نے کہا تھا اس طرح وہ اس پر اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے بڑے خام انداز میں اس کے بعد وہ اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو سونے کے جھمکے تحفے کے طور پر پیش کرتا ہے کرشنا کماری یہ ڈبیا غصے میں آ کر ایک طرف پھینک دیتی ہے۔ کرشن کمار کو صدمہ پہنچتا ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے چونکہ وہ بے حد سادہ لوح ہے اس لیے وہ ساری بات کرشنا کو بتا دیتا ہے مجھے جُگدیش نے کہا تھا کہ دل میں کوئی بات نہیں رکھنی چاہیے، مجھے کئی راتوں سے نیند نہیں آئی میں ہر وقت تمہارے متعلق سوچتا رہتا ہوں۔ تم نے کیوں مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اگر میرے دل میں تمہارے لیے محبت پیدا ہوئی ہے تو یہ تمہار اقصور ہے میرا نہیں۔ یہ جھمکے تو میں نے تمھیں دینے ہیں ان سے میری محبت ظاہر نہیں ہوتی یہ تو مجھ سے جُگدیش نے کہا تھا کہ ایسے موقوں پر تحفہ ضرور دینا چاہیے میں تو اپنی ساری زندگی تمھیں تحفے کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوں۔

جب کرشنا کماری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جگدیش نے اسے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ کرشن کمار کی صاف گوئی سے متاثر ہوتی ہے تو وہ جھمکوں کی ڈبیا اُٹھا لیتی ہے اور اپنے پاس رکھ لیتی ہے اور اس سے کہتی ہے مجھے تمہارا یہ تحفہ قبول ہے۔ کرشن کمار بہت خوش ہوتا ہے جھمکے لے کر کرشن کماری کچھ اور کہے سُنے بغیر چلی جاتی ہے کرشن کمار چند لمحات خاموش کھڑا رہتا ہے اتنے میں جُگدیش اور ستیش دونوں جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلتے ہیں اور کرشن کمار کو مبارکباد دیتے ہیں کرشن کمار بہت جھینپتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ جُگدیش سے کہتا ہے ’’مگر یار تم نے تو کہا تھا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتلاؤں گا۔‘‘ ستیش کی طرف دیکھ کر وہ پھر کہتا ہے ان کو بھی پتہ لگ گیا ہے جُگدیش کرشن کمار کو تسلی دیتا ہے کہ ستیش اپنا آدمی ہے وہ کسی سے کچھ نہیں کہے گا چنانچہ ستیش بھی کرشن کمار کو ہر ممکن تسلی دیتا ہے کہ وہ اس کے عشق کا راز کسی کو نہیں بتائے گا۔

طویلے میں چرنجی ساز پالش کررہا ہے۔ تانگے کی پیتل کی چیزیں پالش کررہا ہے گھوڑے کو مالش کررہا ہے جب مالش کرتا ہے تو اُس سے پیار و محبت کی باتیں کرتا ہے۔ دوست تم نے میری بہت خدمت کی ہے اگر تم نہ ہوتے تو جانے زندگی کتنی کٹھن ہو جاتی تم نے اور میں نے دونوں نے مل کر مُنی کو پڑھایا ہے اتنے میں اس کے دو تین دوست جو تانگے والے ہیں، آتے ہیں ان میں ایک چرنجی سے کہتا ہے یہ تم گھوڑے سے کیا باتیں کر رہے ہو جیسے یہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ چرنجی گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے اور کہتا ہے انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی۔ انھیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔ غلام محمد تیری جان کی قسم سچ کہتا ہوں اس جانور نے میری بڑی خدمت کی ہے تانگے میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جوتے رکھا ہے غریب اتنے میں پٹھان آتا ہے چرنجی اس کو سلام کرتا ہے اور اپنے تہمند کے ڈب سے نوٹ نکالتا ہے اور کہتا ہے۔

’’خان صاحب یہ رہے آپ کے سو روپے کھر ے کر لیجیے۔ باقی رہے سو ا س کا بھی بندوبست ہو جائے گا۔ یہ میرا گھوڑا سلامت رہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ بڑے فخر سے اپنے گھوڑے کی طرف دیکھتا ہے پٹھان نوٹ لے کر چلا جاتا ہے اتنے میں ایک تانگے والا چرن جی سے کہتا ہے تم لڑکی کو پڑھانا شروع کر کے خواہ مخواہ ایک جنجال میں پھنس گئے ہو۔ کوئی نہ کوئی قرض خواہ تمہارے پیچھے لگا ہی رہتا ہے۔ چرنجی ہنستا ہے سب سے بڑی قرض خواہ میری بیٹی ہے اس کا قرض ادا ہو جائے تو ایسے لاکھ قرض لینے والے میرے پیچھے پھرتے ہیں مجھے کوئی پروانہ نہیں تم میں سے کوئی افیم کا نشہ کرتا ہے کوئی شراب کا مجھے بھی ایک نشہ ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ میری لڑکی دولت مند آدمیوں کی لڑکیوں کی طرح پڑھ رہی ہے تو میرا دل و دماغ ایک عجیب نشے سے جھومنے لگتا ہے عورت کو ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے میرے بھائی اس کے قدم مضبوط ہو جاتے ہیں یہ کہہ کر وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے اور خوش خوش باہر نکلتا ہے تاکہ گھر جائے۔ اندر آئینہ سامنے رکھے کرشنا کماری اپنے کانوں میں کرشن کمار کے دئیے ہوئے جھمکے پہنے بیٹھی ہے اور انھیں پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے گیت گا رہی ہے اور جیسے بے خود سی ہو رہی ہے جھمکے اسے بہت پسند آئے ہیں اس پسندیدگی کا اظہار اُس کی ہر حرکت سے معلوم ہوتا ہے۔

چرنجی آتا ہے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی وہ گانے کی آواز سنتا ہے۔

کرشنا کماری بدستور گانے میں مشغول ہے دفعتاً پاگلوں کی طرح چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشن کماری ایک دم گانا بند کر کے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو ڈھانپ لیتی ہے چرنجی آگے بڑھتا ہے زور سے کرشنا کماری کے دونوں ہاتھ نیچے جھٹک دیتا ہے۔ قریب ہے کہ جھمکوں کو اس کے کانوں سے نوچ لے۔ کرشن کماری خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹتی ہے چرنجی پاگلوں کی طرح اُس کی طرف بڑھتا ہے اور چلانا شروع کر دیتا ہے کہاں سے لیے ہیں تو نے جھمکے کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے ’’وہ اس قدر زور سے چلاتا ہے کہ ایک دم اسے چکر آ جاتا ہے۔ جذبات سے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتا ہے اس کی بلند آواز بالکل دھیمی ہو جاتی ہے کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے۔ سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے اس کی لڑکی فوراً پنکھا لے کر جھلنا شروع کر دیتی ہے۔

چند لمحات کی خاموشی کے بعد وہ ایک گلاس پانی مانگتا ہے۔ کرشن کماری اس کو پانی پلاتی ہے پانی پینے کے بعد وہ کرشنا کماری سے پھر پوچھتا ہے منی یہ جھمکے تو نے کہاں سے لیے ہیں کرشنا کماری تھوڑے سے توقف کے بعد ذرا حکمت سے جھوٹ بولتے ہوئے جواب دیتی ہے’’ کالج کی ایک سہیلی نے دئیے ہیں۔ چرنجی اپنی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے اپنی سہیلی کو واپس دے آؤ۔ لڑکی پوچھتی ہے کیوں پتا جی چرنجی جواب دیتا ہے۔ تمہاری ماں کو یہ زیور پسند نہیں تھا یہ کہہ کر وہ اُٹھتا ہے اور بیماروں کی طرح قدم اُٹھاتا باہر چلا جاتا ہے اُس کی لڑکی اُس سے پوچھتی ہے۔ ’’کھانا نہیں کھائیں گے آپ؟‘‘

چرنجی جواب دیتا ہے ’’نہیں۔‘‘

باہر نکل کر چرنجی گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے۔ اور تانگہ چلاتا ہے اور (گھوڑے کو) مخاطب کر کے اُس سے کہتا ہے آج میری لڑکی نے پہلی بار جھوٹ بولا ہے اور افسردگی کے عالم میں وہ تانگے پر کئی بازاروں کے چکر لگاتا ہے حتیٰ کہ رات ہو جاتی ہے۔

ایک نیم روشن بازار میں سے اُس کا تانگہ گزر رہا ہے اچانک ایک عورت چند مردوں کی جھپٹ سے نکل کر تیزی سے چرنجی کے تانگے کی جانب بڑھتی ہے وہ لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے بھاگتی تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ جاتی ہے یہ عورت شراب کے نشے میں چور ہے۔ زیورات سے لدی ہوئی ہے تانگے میں بیٹھتے ہی وہ چرنجی سے باتیں شروع کر دیتی ہے۔ ‘‘مجھے چھیڑتے تھے اُلو کے پٹھے پر میں دام لیے بغیر کسی کو ہاتھ لگانے دیتی ہوں کیوں تانگے والے تمہارا کیا خیال ہے۔ دنیا میں پیسہ ہی تو ہے تم کچھ بولتے نہیں۔ مجھے یاد آیا میرا پتی ایک تانگے والا ہی تھا پر اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ مجھے نگوڑے جھمکے لا دیتا لیکن اب دیکھو میری طرف یہ کڑے ٗ یہ گُلوبند ٗ یہ انگوٹھیاں ایک سے ایک بڑھ کر یہ کہہ کر وہ درد بھرے انداز میں ہنستی ہے۔ عصمت کا گہنا اتر جائے تو یہ زیور پہننے ہی چاہئیں۔

چرنجی پہچان لیتا ہے کہ یہ عورت کون ہے اُس کی بیوی تھی جو اس حالت کو پہنچ چکی تھی۔ چرنجی کمبل سے اپنا چہرہ قریب قریب چھپا لیتا ہے اس پر طوائف اُس سے کہتی ہے تم کیوں اپنا چہرہ چھپاتے ہو چھپانا تو مجھے چاہیے یہ چہرہ جس پر کئی پھٹکاریں پڑی ہیں یہ کہہ کر وہ پھر ہنستی ہے تم خاموش کیوں ہو تانگہ روک دو میرا گھر آگیا ہے چرنجی تانگہ روک دیتا ہے طوائف پائیدان پر پاؤں رکھ کر اُترنے لگتی ہے کہ لڑکھڑا کر گرتی ہے اوندھے منہ چرنجی دوڑ کر اُسے اُٹھاتا ہے طوائف ہنستی ہے گرنے والوں کو اُٹھایا نہیں کرتے میری جان یہ کہہ کر جب وہ گھر کی طرف چلنے لگتی ہے تو لڑکھڑا کر پھر گرتی ہے۔ چرنجی اس کو تھام لیتا ہے اور اُس کو اُس کے گھر تک چھوڑ آتا ہے جب چلنے لگتا ہے تو طوائف اس کو کرایہ دیتی ہے چرنچی کرایہ لے لیتا ہے طوائف اس کا بازو پکڑ کر اندر گھسیٹتی ہے ’’آؤ میری جان آؤ آج کی رات میرے مہمان رہو میں تم سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گی آؤ شراب کی پوری بوتل پڑی ہے اوپر آؤ۔‘‘

چرنجی تانگے میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ طوائف ہنستی ہے اور کہتی ہے بیوقوف کہیں کا مفت کی قاضی بھی نہیں چھوڑتا۔

چرنجی گھر پہنچتا ہے جب اندر داخل ہوتا ہے تو اُسے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے کمرے میں جا کر دیکھتا ہے کہ اس کی لڑکی بستر پر اوندھے منہ لیٹی ہے اور زار زار رو رہی ہے چرنجی اُس کے پاس جاتا ہے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور رونے کا سبب پوچھتا ہے اس کی لڑکی اور زیادہ رونا شروع کر دیتی ہے جب چرنجی دوبارہ اس سے رونے کا سبب پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے مجھے ماں یاد آرہی ہے اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو میں میں وہ اس کے آگے کچھ نہیں کہہ سکی اور باپ کے پاؤں پکڑ کر کہتی ہے مجھے معاف کر دیجیے پتا جی میں نے آج آپ سے جھوٹ بولا ہے چرنجی کہتا ہے مجھے معلوم ہے۔ اس پر اس کی لڑکی کہتی ہے اگر آج میری ماتا جی ہوتیں تو میں نے یہ جھوٹ کبھی نہ بولا ہوتا بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لڑکیاں صرف اپنی ماؤں کو ہی بتا سکتی ہیں چرنجی اپنی لڑکی کو اُٹھاتا ہے اور اپنے پاس بٹھاتا ہے میں تمہاری ماں ہوں ’’بولو کیا بات ہے شرماؤ نہیں۔‘‘ کرشنا کماری جھینپ جاتی ہے اور شرما کر کہتی ہے ’’ یہ جھمکے مجھے کالج کے ایک لڑکے نے دئیے ہیں پتا جی۔ وہ بہت ہی اچھا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل جاتی ہے سسکیاں لیتی ہوئی چرنجی بستر پر پڑے ہوئے جھمکوں کو اُٹھاتا ہے اور اُن کی طرف دیکھتا ہے۔

چرنجی کا تانگہ کالج کے دروازے میں داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اپنی کتابیں لے کر نیچے اُترتی ہے چرنجی اپنی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور لڑکی کو دے کر کہتا ہے اسے آج واپس کر دینا ’’کرشنا کماری ڈبیا لے کر خاموشی سے چلی جاتی ہے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی وہ کالج کے باغیچے کی طرف بڑھتی ہے۔ باغیچے میں ایک بنچ پر کرشن کمار بیٹھا ہے اور ایک خط پڑھ رہا ہے کرشنا کماری کو دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس سے باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ماتا جی کا خط آیا ہے لو پڑھو نہیں ٹھہرو۔ میں پڑھ کے سُناتا ہوں پر تم ہنسنا نہیں، میری ماں بے چاری سیدھی سادی دیہاتی ہے میں نے ان کو تمہاری بات لکھی ہے میں اُن سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتا سُنو انھوں نے کیا لکھا ہے بیٹا کمار ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اس لڑکی کی بدنامی ہو اس کے ماں باپ سے ملو اور کہو جیسی وہ ان کی بیٹی ہے ویسے ہی تم ان کے بیٹے ہو میری طرف سے اُس کو آشیرواد دینا تم جُگ جُگ جیو اور باقی احوال یہ ہے کہ میں نے خالص گھی کی اپنے ہاتھ سے یہ مٹھائی بنائی ہے جو تمھیں بھیج رہی ہوں اس میں آدھا حصہ تمہاری کرشنا کماری کا ہے۔ کہنا تمہاری ماتا جی نے بھیجا ہے۔ کرشنا کماری دم بخود یہ باتیں سنتی رہتی ہے کرشن کمار اس رو میں باتیں کرتا رہتا ہے اور کرشنا کماری کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کچھ کہہ سکے دیکھا میری ماں کتنی سیدھی سادھی ہے انھوں نے مٹھائی بھیجی ہے بالکل خراب تھی۔ پر میں ساری کی ساری کھا گیا ہوں کیا کرتا اگر نہ کھاتا تو ناراض ہو جاتیں۔ میں بھی بالکل ان جیسا ہوں اگر تم نے اس روز میرا تحفہ قبول نہ کیا ہوتا تو میرا دل ٹوٹ جاتا جانے میں کیا کر بیٹھتا کرشنا کماری کچھ کہنا چاہتی ہے مگر اس کی آواز رندھ جاتی ہے جھمکے واپس دینا چاہتی ہے نہیں دے سکتی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں ایک دم تیزی سے مڑتی ہے اور کرشن کمار کو وہیں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

کرشنا کماری تیزی سے جارہی ہے کہ اس کی مڈ بھیڑ جُگدیش اور ستیش سے ہوتی ہے دونوں اُس کی طرف غور سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں کرشنا کماری چلی جاتی ہے جگدیش اور ستیش ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اُس طرف بڑھتے ہیں جدھر کرشن کمار بیٹھا ہے۔

جُگدیش اور ستیش دونوں کمار سے ملتے ہیں جُگدیش اُس سے کہتا ہے ’’کمار تم نے یہ کیا غضب کر دیا بے چاری رو رہی تھی بھئی یہ رومانس اچھا رہا مارا وارا تو نہیں تم نے ‘‘

کرشن کمار سادہ لوحی کے ساتھ مسکراتا ہے اور کہتا ہے ایک خاص بات تھی جُگدیش نے اُس سے یہ خاص بات دریافت کی تو کرشن کمار کہتا ہے ایک خاص بات تھی جگدیش پھر اُس سے یہ خاص بات دریافت کرتا ہے کرشن کمار کہتا ہے۔ بھئی سب باتیں تمھیں نہیں بتا سکتا۔ کہہ جو دیا ایک خاص بات تھی یہ کہہ کر وہ چلا جاتا ہے جگدیش اور ستیش دونوں اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں اور کرشنا کماری کے متعلق باتیں شروع کر دیتے ہیں جُگدیش کہتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ فلرٹ ہے اُس کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تانگے والے سے بات چیت کی جائے وہ اُس کے سارے بھید جانتا ہوگا باہر ہی باہر معاملہ طے ہو جائے گا اور یہاں کالج میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ ستیش کو یہ بات پسند آتی ہے چنانچہ طے ہوتا ہے کہ جگدیشن تانگے والے سے بات چیت کرے۔

چرنجی کالج کے باہر تانگہ لیے کھڑا ہے پاس ہی پان سگریٹ والے کی دُوکان ہے یہاں جُگدیش کھڑا ہے پان والے سے پان اور سگریٹ لیتا ہے اور چرنجی کی طرف بڑھتا ہے گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے پھر اس کی تعریف کرتا ہے اس طرح وہ چرنجی سے آہستہ آہستہ گفتگو شروع کر دیتا ہے آخر میں وہ باتوں باتوں میں چرنجی سے کہتا ہے ’’استاد ہر عیش کرتے ہو ہر روز ایک پٹاخہ سی لونڈیا اس تانگے میں بٹھا کر لاتے ہو اور لے جاتے ہو اچھا میں نے کہا۔ کچھ ہماری دال گل سکتی ہے اور اُستاد تم چاہو تو سب کچھ کرسکتے ہو تمہارے دائیں ہاتھ کا کام ہے ایسا ہی ایک تانگہ گھوڑا بن جائے گا۔ اگر ہمارا کام ہو جائے ، چرنجی ہنستا رہتا ہے جگدیش کو اور شہہ ملتی ہے’’ اماں ہم سب جانتے ہیں کہ لونڈیا ایسی نہیں کہ ہاتھ نہ آسکے۔ کالج میں اس کا ایک لڑکے سے سلسلہ جاری ہے۔ چرنجی اب کچھ دلچسپی لیتا ہے اور جگدیش سے چند باتیں دریافت کرتا ہے جگدیش اسے بتاتا ہے کہ اس لڑکی کرشنا کماری پر کالج میں ایک لڑکا جو بہت بدمعاش ہے ڈورے ڈال رہا ہے اور اُس لڑکے سے وہ کانوں کے جھمکے بھی لے چکی ہے۔

یہ سب باتیں بتانے کے بعد جگدیش چرنچی سے کہتا ہے ‘‘دیکھو اگر اس کو زیوروں کا ہی شوق ہے تو ہم بڑھیا بڑھیا چیز دے سکتے ہیں تم یہ باتیں اپنے طور سے اس کے ساتھ کرنا سمجھے۔ اس قسم کی چند باتیں ہونے کے بعد طے ہوتا ہے کہ جگدیش شام کو کمپنی باغ کے پاس فلاں فلاں مقام پر چرنجی کا انتظار کرے جب لڑکی جھٹ مان جانے والی ہے تو چرنجی سارا معاملہ ٹھیک کر دے گا۔‘‘

اسی روز شام کو جُگدیش مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا ہے کھمبے کے ساتھ کھڑا سگریٹ پی رہا ہے اتنے میں عین وقت پر چرنجی کا ٹانگہ سڑک پر نمودار ہوتا ہے چرنجی کھمبے کے پاس اپنا تانگہ روکتا ہے جگدیش بہت خوش ہو کر چرنجی سے کہتا ہے ‘‘بھئی بالکل انگریز ہو ٹھیک وقت پر آئے ہو نہ ایک منٹ اُدھر نہ ایک منٹ ادھر چرنجی مسکراتا ہے اور کہتا ہے، اب آپ وقت ضائع نہ کیجیے اور بیٹھ جائیے تانگے میں میں آپ کو سیدھا راستہ بتا دُوں جُگدیش خوش خوش تانگے میں بیٹھ جاتا ہے اور چرنجی کو ایک سگریٹ پیش کرتا ہے تانگہ چلتا ہے۔

جُگدیش چرنجی کے ساتھ لڑکی کی باتیں کرتا رہتا ہے تانگہ مختلف سڑکیں طے کرنے کے بعد ایک ویران سی جگہ پر پہنچتا ہے چرنجی باگیں کھینچ کر گھوڑا ٹھہرا تا ہے بڑے اطمینان سے اپنا کمبل اور پگڑی اتار کر اگلی نشست پر رکھتا ہے اور آستینیں چڑھا کر جگدیش سے کہتا ہے آئیے آپ کی لڑکی سے ملاقات کرا دوں’’ جُگدیش چرنجی کی طرف شک کی نظروں سے دیکھتا ہے مگر چرنجی اس کا بازو پکڑ تا ہے اور کھینچ کر جھاڑیوں کے پیچھے لے جاتا ہے چند لمحوں کے بعد جُگدیش کا ہیٹ سڑک پر آگرتا ہے۔

کالج کا ہوسٹل جُگدیش کا کمرہ باہر دروازے پر جُگدیش کا نام پیتل کے بورڈ پر لکھا ہوا ہے ستیش آتا ہے اور دروازے پر دستک دیتا ہے دروازہ کھلتا ہے ستیش اندر داخل ہوتا ہے کیا دیکھتا ہے کہ جُگدیش کا سر منہ سُوجا ہوا ہے اور کئی پٹیاں اس کے جسم پر بندھی ہیں۔ ستیش اس سے پوچھتا ہے یہ کیا ہوگیا ہے تمھیں جُگدیش اسے کرسی پر بٹھاتا ہے اور سارا قصہ سُناتا ہے بھئی یہ تو برسوں کی ورزش کام آگئی ورنہ بندے کا تو کل کام تمام ہوگیا ہوتا۔ میں نے تانگے والے سے تمام معاملہ طے کر لیا چنانچہ وہ مجھے کمپنی باغ میں ملا لڑکی وہاں موجود تھی اُس سے باتیں بھی ہوئیں لیکن ستیش کے ہمراہ وہاں تین چار اور چاہنے والے آگئے۔ مجھے اُس کے ساتھ دیکھ کر جل ہی تو گئے اُن میں سے ایک نے مجھ پر کوئی ریمارکس کسا۔ لڑکی میرے ساتھ تھی میں نے دل میں کہا جُگدیش یہاں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ میں اُٹھا اور ایک ایسا گھونسہ اُس سالے کی ٹھوڑی کے نیچے جمایا کہ دن کو تارے ہی نظر آ گئے ہوں گے بچہ جی کو ٗ بس پھر کیا تھا۔ باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔ چاروں مجھ پر پل پڑے مگر ستیش میں نے بھی وہ ہاتھ دکھائے کہ یاد ہی کرتے ہوں گے ایک ایک کو فرش کر کے رکھ دیا۔ کچھ چوٹیں مجھے بھی آگئیں ساتھ والے کمرے میں یہ سب باتیں کرشن کمار سنتا ہے کیونکہ دونوں کمروں کے درمیان لکڑی کا ایک پردہ ہے جو اوپر سے خالی ہے ستیش جُگدیش کی سب باتیں سُن کر کہتا ہے اور بھائی ایسے موقعوں پر کون کس کی مدد کرتا ہے تم کیا بچوں ایسی باتیں کرتے ہو اتنے میں جُگدیش کے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور کرشن کمار غصے میں بھرا ہوا داخل ہوتا ہے جُگدیش سے کہتا ہے ’’تم نے جو کچھ کہا ہے جھوٹ ہے تم ایک شریف لڑکی پر بہتان باندھ رہے ہو‘‘ جُگدیش سنتا ہے اور کہتا ہے ’’میرا کچومر نکل گیا ہے اور تم کہتے ہو بہتان باندھ رہا ہوں یقین نہ ہو تو تانگے والے سے پوچھ لو جو مجھے لے گیا تھا غصے میں آکر چونکہ اُس کی محبوبہ کی عزت پر حملہ کیا گیا ہے۔‘‘ کرشن کمار زور سے ایک چانٹا جُگدیش کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے بکواس مت کرو لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے ’’مجھے معاف کر دو جُگدیش یہ چانٹا تمہارے منہ پر نہیں اس تانگے والے کے منہ پر مارنا چاہیے تھا جو اس کی زندگی تباہ کررہا ہے یہ کہہ کر چلا جاتا ہے۔‘‘

کرشن کمار اپنے کمرے میں آتا ہے میز پر بیٹھتا ہے کاغذ لے کر خط لکھنا شروع کر دیتا ہے مگر چند سطریں لکھ کر کاغذ پھاڑ دیتا ہے کرسی پر سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کمرے میں اضطراب کے ساتھ ادھر ادھر زور سے ٹہلتا ہے سامنے کھونٹی پر اپنا سُوٹ دیکھتا ہے اُسے اُتار کر اپنے پیروں میں روند دیتا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تو پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے پھر اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر درد بھری دھن میں کوئی گیت گاتا ہے چرنجی کھانا کھا رہا ہے پاس ہی اس کے اس کی لڑکی بیٹھی ہے چرنجی منہ میں نوالہ ڈالنے ہی والا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آتی ہے چنانچہ وہ اپنی لڑکی سے پوچھتا ہے ’’مُنی تم نے جھمکے واپس کیے، کرشنا کماری جھوٹ نہیں بولتی ‘‘ پتا جی میں اس کو واپس دینے گئی پر دے نہ سکی۔ چرنجی نوالہ وہیں تھال میں رکھ دیتا ہے اور پوچھتا ہے ’’کیوں؟ کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں وہ صرف اتنا کہہ سکتی ہے مجھے معلوم نہیں’’ چرنجی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کھانا کھائے بغیر باہر چلا جاتا ہے۔

ایک آدمی عینک لگائے ڈیسک کے ساتھ بیٹھا ہے چرنجی سے کہتا ہے یہاں انگوٹھا لگاؤ۔ چرنجی اپنا انگوٹھا آگے بڑھا دیتا ہے اس پر وہ آدمی سیاہی لگاتاہے اور پکڑ کر کاغذ پر جما دیتا ہے انگوٹھا لگانے کے بعد وہ ڈیسک سے نوٹ نکالتا ہے اور چرنجی کے حوالے کر دیتا ہے چرنجی نوٹ لے کر باہر نکلتا ہے۔

باہر ایک شیڈ کے نیچے اس کا ایک تانگہ گھوڑا کھڑا ہے چرنجی اپنے انگوٹھے کی سیاہی دیکھتا اس کی جانب بڑھتا ہے ایک ہاتھ میں اس نے نوٹ پکڑے ہوئے ہیں آہستہ آہستہ گھوڑے کے پاس جاتا ہے اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر گلو گیر آواز میں کہتا ہے ’’بیچ آیا ہوں تجھے دوست یہ دیکھ اپنی قیمت‘‘ یہ کہہ کر وہ گھوڑے کے منہ کے آگے اپنا وہ ہاتھ پھیلا دیتا ہے جس میں نوٹ ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو ہیں لوگ اپنا ایمان بیچتے ہیں میں تجھے بیچ آیا ہوں تو جو کہ میرا سچا دوست تھا آواز چرنجی کے گلے میں رندھ جاتی ہے تو بول نہیں سکتا تو تیری زبان ہوتی تو میں تیرے منہ سے سُنے بغیر کبھی نہ جاتا کہ چرنجی تو جھوٹا ہے مطلبی ہے۔ دغا باز ہے جس طرح وقت پڑنے پر لوگ گلے کا کنٹھا اُنگلی کی انگوٹھی بیچ دیتے ہیں اس طرح تو نے مجھے بیچ دیا ہے لعنت ہے تجھ پر یہ کہہ کر وہ اپنا انگوٹھا دیکھتا ہے اور گھوڑے سے کہتا ہے یہ سیاہی دیکھی تم نے اس سودے کی مالک ہے مگر میں تیرے ساتھ کیوں باتیں کروں تو اب میرا نہیں مجھے تجھ پر کوئی حق نہیں رہا۔ آخری بار چرنجی منہ پر ے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے۔

رات کا وقت ہے چرنجی کمبل اوڑھے پیدل چلا آرہا ہے راستے میں ایک تانگے والا تانگہ ٹھہرا کر اس سے پوچھتا ہے ’’آج تانگہ گھوڑا نہیں جوتا چرنجی۔ چرنجی جواب دیتا ہے آج نہیں جوتا۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ یہ کہہ کر وہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ گھر میں چرنجی کی لڑکی کرشنا کماری لالٹین جلائے انتظار کررہی ہے۔ کبھی اُٹھتی ہے کبھی بیٹھتی ہے اسے کسی پہلو چین نہیں اتنے میں دروازہ پر دستک ہوتی ہے وہ اُٹھ کر دروازہ کھولتی ہے چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اُس سے پوچھتی ہے پتا جی آج آپ اتنی دیر سے آئے ہیں کہاں چلے گئے تھے۔ چرنجی اپنے کمبل سے ایک پوٹلی نکالتا ہے اور اُسے کھول کر اپنی لڑکی کو دیتا ہے یہ زیور لانے گیا تھا تیرے لیے تجھے شوق جو ہے ان کا اب تو تیرا دل نہیں للچائے گا تو کہے گی تو میں ایسے اور زیور بھی لا دوں گا اپنا آپ بھی بیچ ڈالوں گا تیرے دل میں للچاہٹ پیدا نہ ہونے دُوں گا۔ کرشنا کماری کبھی زیوروں کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے باپ کی طرف آخر میں کہتی ہے کوئی چیز بیچی ہے آپ نے یہ گہنے خریدنے کے لیے اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو سخت غلطی کی ہے یہ کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ سے زیور فرش پر گر پڑتے ہیں پتا جی میں نے کبھی ان چیزوں کو للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھے ان چیزوں کا شوق ہے چرنجی اُس سے کہتا ہے تو نے وہ جھمکے واپس کیوں نہیں کیے۔‘‘

کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کاش میری ماں ہوتی اور میری بات سمجھ سکتیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ میں سونے چاندی کے لیے اپنا آپ بیچ دُوں گی آپ نے مجھے تعلیم دی ہے میرے قدم مضبوط کیے ہیں پتا جی میں آپ کی بیٹی ہُوں آپ نے میرا نہیں اپنا اپمان کیا ہے یہ کہہ کر وہ روتی روتی پاس پڑے ہوئے صندوقچے سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتی ہے اور اپنے باپ کو دے کر کہتی ہے ’’لیجیے یہ جھمکے جس نے مجھے دیے تھے اُس کو آپ ہی واپس دے آئیے اگر آپ کہیں گے تو میں اُس کی یاد کو بھی اپنے دل سے نکال کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گی یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ چرنجی فرش پر پڑے ہوئے زیوروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ‘‘

کالج کا صدر دروازہ کرشن کمار خاموشی سے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اُس کی نظریں دروازہ پر جمی ہوئی ہیں جُگدیش اور ستیش آتے ہیں ستیش اس سے پوچھتا ہے بڑی دیر سے یہاں خاموش کھڑے ہوکیا بات ہے۔ کرشن کمار ایک عزم کے ساتھ جواب دیتا ہے اُس بدمعاش تانگے والے کا انتظار کررہا ہوں آج اُس کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ ساری عُمر یاد رکھے گا۔ جُگدیش کرشن کمار کو تانگے والے کے خلاف اور زیادہ مشتعل کرتا ہے دفعتاً سب کی نظریں دروازے کی طرف اُٹھتی ہیں تانگے والا چرنجی کرشنا کماری دونوں پیدل اندر داخل ہوتے ہیں جُگدیش یہ دیکھ کر کہتا ہے آج تانگہ کہاں گیا اور کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر چرنجی اپنی لڑکی کو کتابیں دیتا ہے کرشنا کماری دُور سے کرشن کمار کو دیکھتی ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ چرنجی سر ہلا دیتا ہے کرشن کمار کرشنا کماری کا اشارہ دیکھ لیتا ہے کرشنا کماری ایک طرف چلی جاتی ہے کرشن کمار غصے میں بھرا سیدھا تانگے والے کی طرف بڑھتا ہے چرنجی بھی اُس کی طرف آرہا ہوتا ہے چرنجی کے پاس پہنچ کر کرشن کمار نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کھینچ کر ایک چانٹا چرن جی کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے کہ اشارے ہو رہے تھے میری طرف کیا مجھے بھی تم اپنے جیسا بدمعاش سمجھتے ہو۔ ایک چانٹا وہ چرنجی کے منہ پر جما دیتا ہے۔ اُلو کے پٹھے شرم نہیں آتی تجھے پرائی لڑکیوں کو بُرے راستے پر لگاتے ہوئے کیا تیری کوئی لڑکی نہیں جو پیسے کے لالچ میں آ کر بھڑوے بنے ہوئے ہو چرنجی کے منہ سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے وہ آگے بڑھتا ہے کرشن کمار یہ سمجھ کر کہ وہ اُسے مارنا چاہتا ہے گھونسے بازی شروع کر دیتا ہے چرنجی اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے کرشن کمار گھونسے چلاتا رہتا ہے اتنے میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں جن میں جُگدیش بھی شامل ہے ایک دو پٹیاں ابھی تک اسی کے سر پر بندھی ہوئی ہیں کرشنا کماری چیختی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور کرشن کمار سے کہتی ہے ’’کمار یہ تم کیا کررہے ہو۔ یہ میرے پتا جی ہیں’’کرشن کمار متحیر ہو کر کہتا ہے ’’پتا جی۔ چرنجی کے منہ سے خون جاری ہے وہ مسکراتا ہے ہاں بیٹا میں اس کا پِتا ہوں اور تمہارا بھی یہ کہہ کر وہ کرشن کمار کو سینے سے لگا لیتا ہے جیتے رہو میں نے تم سے مار کھائی ہے لیکن اس جوان سے پوچھو کہ وہ جُگدیش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میرے بازوؤں میں کتنا بل ہے جُگدیش و


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.