جہاں سے دوش عزیزاں پہ بار ہو کے چلے
Appearance
جہاں سے دوش عزیزاں پہ بار ہو کے چلے
یہ سوئے ملک عدم شرمسار ہو کے چلے
ہمارے دیکھنے کو خوش ابھی سے ہیں اعدا
ذرا نہ دیکھ سکے اشک بار ہو کے چلے
پہنچ ہی جاؤ گے مے خانہ میں خضر تم بھی
ہمارے ساتھ جو یاروں کے یار ہو کے چلے
تمہاری رہ کا رہا ہم کو ہر طرف دھوکا
چلے جدھر کو سو بے اختیار ہو کے چلے
ثنا نگار یہ ہے کس کے خلق کا عارفؔ
قلم ورق پہ نہ کیوں اشک بار ہو کے چلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |