جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
Appearance
جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
وہیں ہے گنہ پہ ڈٹ کے گناہ کرنا
بتوں سے بڑھا کے میل نباہ کرنا
جہاں کے سفید کو ہے سیاہ کرنا
سکھایا ہے مجھ کو اس مری بے کسی نے
اسی کو ستم کا اس کے گواہ کرنا
لبھانے سے دل کے تھا تو یہ مدعا تھا
غریب کی زندگی کو تباہ کرنا
یہی تو ہے ہاں یہی وہ ادائے معصوم
الگ ہوئی جو سکھا کے گناہ کرنا
جفا سے بھی لیں مزہ نہ وفا کا کیوں کر
ہمیں تو ہر اک طرح ہے نباہ کرنا
یہ کہتا ہے چشم ہوش ربا کا جادو
تجھے ترے ہاتھ سے ہے تباہ کرنا
تری نظر سے سیکھا ہے آہ دل نے
جگر میں شگاف ڈال کے راہ کرنا
نظر میں نظر گڑائے ہے یوں وہ ظالم
کہ آرزوؔ اب کٹھن ہے اک آہ کرنا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |