جی بھرا آتا ہے خالی مے کا پیالہ دے گیا
Appearance
جی بھرا آتا ہے خالی مے کا پیالہ دے گیا
دیکھیو کیا آج ہم کو شوخ بالا دے گیا
اس بت پیماں گسل کو جب کہ میں لاتا ہوں گھر
کوئی نکوئی دے کے بالا مجھ کو تالا دے گیا
چاک سینہ کو جگر کو داغ دل کو درد زخم
تاجر غم شہر الفت کے یہ کالا دے گیا
کل کے دن دکھلا کے اپنا جلوۂ صنعت گری
یاد اپنی شب کو وہ باری تعالی دے گیا
نام اپنا جپنے کو ہر ہر طرح سے ہر جگہ
سبحہ تو مسجد میں بت خانے میں مالا دے گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |