جی لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا
Appearance
جی لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا
بجھتا ہے چراغ آج سر شام ہمارا
ایسا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا
اول تو نہ قاصد کو رہے کوئے صنم یاد
پہنچے تو فراموش ہو پیغام ہمارا
ہم گو کہ ہیں دیوانے مگر غرق یم اشک
یونان کے مانند ہوا نام ہمارا
مے پائی نہ پینے کو تو ہم پی گئے آنسو
اشکوں سے بھی ساقی نہ بھرا جام ہمارا
کعبے میں بھی وحشت کی رہی دست درازی
صد چاک کیا جامۂ احرام ہمارا
طفلی میں تھی اک دایہ ہیں اب چار کے کاندھے
آغاز سے کیا خوب ہے انجام ہمارا
اک آدھ رہے جسم مشبک میں ترا تیر
خالی نہ کبھی صید سے ہو دام ہمارا
کام اوروں کے جاری رہیں ناکام رہیں ہم
اب آپ کی سرکار میں کیا کام ہمارا
ناسخؔ کہیں جلد آ کے کہیں قاصد جاناں
خط لیجئے دلوایئے انعام ہمارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |