Jump to content

حال خوردبین کا

From Wikisource
حال خوردبین کا
by ماسٹر رام چندر
319273حال خوردبین کاماسٹر رام چندر

اب میں یہاں سے حال خوردبین کا لکھتا ہوں اور حال اس کا بھی بہت نادرات سے ہے۔ غور سے پڑھو اور قدرت الٰہی کا تماشہ کرو۔ واضح ہو کہ خوردبین ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے سے نہایت چھوٹی سی چھوٹی شیٔ بڑی معلوم ہوتی ہیں۔ اس میں چند شیشے لگے ہوتے ہیں اور جس شیٔ کو دیکھنا منظور ہوتا ہے اس کے ذریعے دیکھتے ہیں اور بروقت دیکھنے کے چیز کا قد نہایت زیادہ ہو جاتا ہے۔

اکثر ناظرین نے دیکھا ہوگا کہ بعض آئینے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں چہرہ آدمیوں کا بڑا معلوم ہوتا ہے۔ باعث اس کا یہ ہے کہ یہ آئینہ ہموار نہیں ہوتا بلکہ وہ ذرا گھرا ہوتا ہے۔ یہی حال خوردبین کی بھی مشینوں کا ہوتا ہے، بذریعہ خوردبین کی ایسی ایسی عجیب باتیں دریافت ہوئی ہیں کہ قبل از ایجاد ہوئے اس آلۂ مفید کے، وہ آدمیوں کے وہم میں نہیں گذری تھیں۔ ان عجیب باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ پانی میں چھوٹے چھوٹے کیڑے ہوتے ہیں اور وہ اس قدر چھوٹے چھوٹے کیڑے ہوتے ہیں کہ بوقت دیکھنے کے نظر میں نہیں آتے ہیں۔ ہرچند ہم پانی کو چھانیں اور نہایت صاف کریں پھر بھی اگر کوئی بذریعہ خوردبین کے اس میں دیکھے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ بعد ہزار دفعہ چھاننے کے بھی چھوٹے چھوٹے کیڑے اس میں موجود ہیں۔

چنانچہ ایک شخص برہمن بڑا پرہیزگار تھا اور حتی الامکان وہ زندہ چیز کو کبھی نہیں ضائع کرتا تھا۔ جب وہ راستے میں چلتا تو آدمی اس کے آگے جھاڑو دیتے جاتے، اس واسطے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی کیڑا وغیرہ اس کے پاؤں کے نیچے آکر مرجاوے اور جب کھانا کھاتا تواس وقت ہزار طرح کی احتیاط ہوا کرتی کہ کوئی جانور مارا نہ جاوے۔ ایک انگریز نے جو مزاج میں شرارت رکھتا تھا، اس برہمن سے کہا کہ تم ناحق اس قدر پرہیز کرتے ہو۔ تم روز پانی میں ہزارہا کیڑوں کو پی جاتے ہو اور واسطے ثبوت اس اظہار کے اس فرنگی نے اس کو چھنے ہوئے اور صاف کئے ہوئے پانی میں، جس کو وہ پیا کرتا تھا، بذریعہ خوردبین کے برہمن مذکور کو ہزارہا کیڑے حرکت کرتے ہوئے دکھلا دیے۔

یہ مشاہدہ کر کے برہمن نہایت رنجیدہ ہوا اور قسم کھائی کہ میں پانی کبھی نہیں پیوں گا اور اس عہد کو اس نے نہ توڑا۔ اخیر کو زیادتی تشنگی سے تڑپ کر مر گیا۔ اس دائرہ میں وہ شکلیں ان چھوٹے جانوروں اور کیڑوں کی جو پانی میں دیکھے گئے ہیں مندرج ہیں۔ خوردبین کے ذریعہ سےیہ بات تحقیق ہوئی ہے کہ جن کو لوگ مونگے کے درخت کہتے ہیں، وہ در اصل درخت نہیں ہیں بلکہ وہ عمارتیں ہیں جو نہایت چھوٹے کیڑوں نے واسطے اپنی بود وباش کے تعمیر کی ہیں اور یہ کیڑے اس قدر چھوٹے ہیں کہ بغیر ذریعہ خورد بین کے نظر نہیں آتے ہیں۔ اس آلے کے ذریعے سے جو جو چھوٹے جانوروں کو دیکھا ہے اور ان کی کیفیت معلوم ہوئی ہے ان کا ہم بیان کرتے ہیں۔ نہایت دلچسپ ہے۔

ظاہر ہو کہ ایک قسم کا جانور جس کا نام بن ہے کہ وہ نہایت چھوٹا ہوتا ہے اور اس کو بغیر خوردبین کے نہیں دیکھ سکتے ہیں اور اس جانور کے سر کو جب خوردبین میں دیکھتے ہیں تو اتنا بڑا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ یہاں دکھائی دیتا ہے۔ بغور ملاحظہ اس شکل کے معلوم ہوگا کہ جب یہ کیڑا ایک دفعہ کسی اتڑی میں جگہ کر لیتا ہے تو وہاں سے اس کا چھٹنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ خوردبین میں پردار جانوروں کے دیکھنے سے بہت لطف حاصل ہوتا ہے اور گھنٹوں تک ان کی آنکھیں، سینگ، بازو بلکہ چھوٹے چھوٹے پر جو ان کے بدن پر ہوتے ہیں دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔

جب خوردبین میں سے مکھی کو ملاحظہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں بہت سے شیشوں کی بنی ہوئی ہے، جو پاس پاس مثل جال کے لگے ہوئے ہیں اور یہ شیشے ایک آنکھ مکھی کی میں کئی ہزار سے زیادہ شمار کئے گئے ہیں اور اس کی آنکھ خوردبین میں اتنی بڑی معلوم ہوتی ہے جیسے کہ یہاں مندرج ہے اور جس وقت پاؤں مکھی کے خوردبین سے دیکھے جاتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ ہم نے یہاں تصویر میں دکھایا ہے اور جب مچھر کے ڈنک کے اجزا کو جدا کرتے ہیں اور خوردبین سے دیکھتے ہیں تو ان کی صورت تیروں اور چاقووں کی سی معلوم ہوتی ہے ان ڈنکوں کی شکلیں یہ ہیں۔

مکڑی کے بہت سے اجزاء بہت اچھے ہیں اور وہ چیز جس سے وہ جالا بنتی ہے سب سے زیادہ لائق دیکھنے کے ہیں۔ یہ شکل اس جزو مکڑی کی ہے جس سے وہ جالا بنتی ہے جیسا کہ وہ خوردبین میں معلوم ہوتا ہے۔ جالا مکڑی کا اگرچہ بوسیلہ خوردبین کےبہت ہی باریک معلوم ہوتا ہے، بنا ہوا ہوتا ہے، بہت ریشوں کا جو اس سے بھی بہت باریک ہیں اور جو تھوڑی دور پر ان چھیدوں میں سے جو مکڑی کے جسم میں ہوتے ہیں اور جس میں سے وہ نکلتے ہیں، آپس میں مل جاتے ہیں۔ مکڑی کی ہر ٹانگ کی سرے میں ایک نوکدار بہت اچھا آنکڑا جو ہر وقت پکڑنے کی چیز کے بند ہوجاتا ہے، ہوتا ہے اور مکڑی کی ٹانگیں اور ناخن جو خوردبین سے دکھائی دیتے ہیں ان کی شکلیں ہم پیش کرتے ہیں۔

نرم پر تیتریوں کے جسم پر ہوتےہیں۔ جب ان کو خوردبین سے دیکھتے ہیں، ذرا ذرا سے چھلکوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، ان کی شکلیں یہ ہیں۔ اور جس وقت خوردبین میں سے پسو کو مشاہدہ کرتے ہیں تو اس کی شکل اتنی بڑی معلوم ہوا کرتی ہے جیسی کہ یہاں مندرج ہے۔ غرض یہ ہے کہ جو خوردبین سے بڑے بڑے مفاد حاصل ہوتے ہیں اور بروقت دیکھنے کے اس سے کسی چیز کو بڑی معلوم ہوا کرتی ہے اور زمانہ قدیم میں اس آلے کو لوگ نہایت کم جانتے تھے لیکن اب دانایان فرنگ نے اس آلے کو بہت رواج دیا ہے اور اس کے سبب سے بہت اچھی اچھی باتیں دریافت کی ہیں۔ عرصہ چند روز کا ہوا کہ اس احقر نے بوسیلے خوردبین کے ایک بال کو، جس پر جوں بیٹھی تھی دیکھا تھا۔ وہ بال مثل شاخ ایک سیب کے درخت کے معلوم ہوتی تھی اور جوں اس پر مثال بندر کے پھرتی معلوم ہوتی تھی۔ اس جائے ہم شکل خوردبین کی بھی درج کرتے ہیں۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.