حال دل بے قرار ہے اور
Appearance
حال دل بے قرار ہے اور
شاید کہ خیال یار ہے اور
اے دیدہ نہ رو کہ تجھ پر اک شب
رنج شب انتظار ہے اور
جاگا ہے کہیں مگر تو دیشب
آنکھوں میں تری خمار ہے اور
فرہاد نے دیکھتے ہی گلگوں
جانا تھا کہ یہ سوار ہے اور
کوچے میں ترے مری نگہ کا
ہر گوشہ امیدوار ہے اور
ہے آخر عمر اس چمن میں
دو چار ہی دن بہار ہے اور
ناوک کا ترے شکار گہ میں
ہر گوشے نیا شکار ہے اور
وہ ہم سے کرے ہے کل کا وعدہ
اوروں سے وہاں قرار ہے اور
کیا لالے سے نسبت اس کو سچ ہے
داغ دل داغ دار ہے اور
اوروں سا نہ جان مجھ کو پیارے
یہ عاشق جاں نثار ہے اور
اے مصحفیؔ اس میں چپ ہی رہ تو
سنتا ہے یہ روزگار ہے اور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |