حامیان اردو
زبانیں کہاں سے آئیں، کیسے بنیں؟ ایک طویل اور پیچیدہ بحث ہے اور اس وقت ہمارے مبحث سے خارج۔ البتہ اردو کہاں سے آئی اور کیسے آئی؟ یہ ہم بتا سکتے ہیں، اس لیے کہ اس کی عمر چھ سات سو سال سے زیادہ نہیں۔ اسے قدرت، انسانی ذوق اور انسانی ضروریات نے بنایا۔
کچھ دیر کے لیے آپ چہل قدمی کو کسی قدیم جنگل میں چلے جائیے، وہاں آپ کو تناور اور گرانڈیل درخت، چھوٹے بڑے پودے، طرح طرح کی بیلیں، پھولوں کے تختے، قسم قسم کی گھاسیں، جڑی بوٹیاں وغیرہ نظر آئیں گی۔ آپ درختوں میں پھل بھی لگے دیکھیں گے۔ بہت سے ایسے جنھیں ہم جانتے ہیں مثلاً کیلے، انجیر، آم وغیرہ اور بہت سے ایسے جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے ہیں۔
اس کے بعد کسی اچھے باغ میں جائیے۔ یہاں بھی سایہ دار اور ثمر دار درخت اور خوش نما پھول اور پھل دیکھنے میں آئیں گے۔ یہ سب چیزیں باغوں اور چمنوں کی زینت ہیں، جنگل سے آئی ہیں، لیکن انسان نے اپنی عقل و تمیز سے ان میں حیرت انگیز شگوفہ کاریاں کی ہیں۔ ایک آم ہی کو لیجیے۔ ایک جنگل کا آم ہے، دوسرا باغ کا آم، دونوں کے ذائقے میں زمین آسمان کا فرق ہے، انسان نے اپنی حکمت سے ان میں طرح طرح کی ایجاد کی ہیں۔ قلم باندھ باندھ کر بے شمار قسمیں بنائیں اور ان میں لطیف خوش بو، ذائقے اور لذتیں پیدا کیں۔ اول اول یہ سب کچھ ہمیں ذوق کی بدولت میسر آیا، پھر تجارت نے اسے ابھارا۔ شوق اور تجارت نے مقابلے پر اکسایا، مقابلے نے کش مکش پیدا کی، یہ کش مکش ہے جو بناتی، سنوارتی اور ابھارتی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی بقا اس کی کش مکش پر ہے۔
قریب قریب یہی حال ہماری اردو زبان کا ہے، جس وقت یہ وجود میں آرہی تھی کسی کو اس کا علم تو کیا احساس بھی نہ تھا کہ کوئی نئی زبان بن رہی ہے۔ البتہ قدرت یعنی تقاضائے وقت اپنا کام کر رہا تھا۔ قدرت کے قانون بھی عجیب و غریب اور پر اسرار ہوتے ہیں، وہ اپنا کام چپکے چپکے کرتے ہیں، خواہ کسی کو خبر ہو یا نہ ہو، انسانی معاملات میں یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز سب سے قریب ہوتی ہے، اس پر سب کے بعد نظر پڑتی ہے۔ جب کہ ہم فارسی، عربی، سنسکرت پر فریفتہ تھے اور ان کی تصانیف اور کلام کے مزے لے رہے تھے، یہ غریب اور حقیر بولی چپکے چپکے ہمارے گھروں، بازاروں، خانقاہوں اور لشکروں میں گھر کر رہی تھی، میں نے اسے غریب اور حقیر اس لیے کہا کہ اس وقت یہ بازاری اور عامیانہ خیال کی جاتی تھی اور اہل ادب اور اہل ذوق اسے منھ نہیں لگاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام بھی نہ تھا۔ جب دار الحکومت دہلی کی آس پاس کی بولی پر فارسی کی قلم لگی تو یہ وجود میں آئی۔ کسی نے دانستہ قلم نہیں لگائی اور نہ کسی جماعت اور انجمن نے یہ مشورہ دیا۔ یہ قدرت کے کام تھے۔
وقت کی بات تھی، وقت کا تقاضا اٹل ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ جوزمانے کی ضرورت اور حالات کے مناسب ہوتا ہے، وہی ہو کے رہتاہے۔ اس وقت اس کی ضرورت تھی۔ بولیاں اور موجود تھیں لیکن یہ سب مقامی اور محدود تھیں۔ حکومت کی وسعت کے ساتھ ایک عام اور وسیع زبان کی ضرورت تھی اور وہ صرف قلم لگانے ہی سے پیدا ہو سکتی تھی اور اس قلم لگانے میں فاتح اور مفتوح دونوں شریک تھے۔ جب اس قلمی زبان کی بوباس اور رسیلے پن سے لوگوں کے کام و دہن آشنا ہوئے تو اس کا چرچا پھیلا۔ فقیر اور صوفی، تاجر اور پیشہ ور، لشکری اور بازاری اسے دور دور تک لے گئے اور جہاں گئی مقبول ہو گئی۔ آخرکار جب یہ بے نام اور عوام کی بول چال سے نکل کر مسند ادب و انشا تک پہنچی تو پہلی بار اسے نام کا شرف بخشا گیا یعنی ریختہ کہلائی اور بعد میں اردو سے موسوم ہوئی جو اب اس کا عام اور مقبول نام ہے۔
اہل ذوق نے اسے سر آنکھوں پر رکھا۔ شعرا نے شعر و سخن کی محفلیں گرم کیں۔ فقرا اور صوفیا کی تلقین، واعظوں کے وعظ، بحث اور مناظرے سب اسی میں ہونے لگے۔ مصنفین اور مؤلفین نے کتابیں، مترجمین نے ترجمے اور افسانہ نویسوں نے افسانے اس میں لکھنے شروع کیے۔ اس وقت فارسی کا بول بالا تھا، اس سے اس کا مقابلہ ہوا۔ مقابلے میں فارسی کی ہار اور اردو کی جیت ہوئی۔ فارسی کو ہٹاکر دفتروں اور عدالتوں میں پہنچی، مدارس میں داخل ہوئی۔ ذریعہ تعلیم بنی۔ اخبار اور رسالے جاری ہوئے۔ بہت سی انجمنیں اور ادارے اس کی حمایت اور اشاعت کے لیے قائم ہوئے۔ علم و ادب میں ترقی اور علوم وفنون میں کتابیں لکھی جانے لگیں۔ غرض ہراعتبار سے سارے ملک پر چھا گئی اور ہندوستان کی مشترکہ اور عام زبان مانی جانے لگی۔ اردو کی یہ جیت ذوقِ ضرورت اور کش مکش سے حاصل ہوئی اور اب بھی انہی کی بدولت ہوگی۔
ایک دن کا کام نہ تھا۔ اس میں صدیاں لگیں۔ یہ ہمارے بزرگوں کی (جس میں ہرقوم و ملت کے لوگ تھے) مسلسل مشقت اور محنت و کوشش اور جاں کاہیوں، دل سوزیوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ اردو کے سچے حامی تھے۔ یہ ہمارے لیے ے بے بہا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جس کے ہم وارث ہیں۔ جو لوگ بزرگوں کے ورثے کو قائم رکھتے اور ترقی دیتے ہیں وہ سپوت کہلاتے ہیں، جو اس سے غفلت برتتے اور تلف کرتے ہیں وہ کپوت یعنی ناخلف ہیں۔ ہم ان بزرگوں کا ذکر خیر سے کرتے ہیں اس لیے کہ انھوں نے ایسا عظیم الشان کام کیا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بھی نیکی سے یاد کیاجائے تو ان کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ ہم پر بڑی ذمے داری ہے، اس لیے کہ وقت نازک اور سخت ہے۔
اردو یوں ہی ایسی شیریں، وسیع اور علمی و ادبی زبان نہیں بن گئی۔ اس نے بڑی بڑی مصیبتیں اور آفتیں جھیلیں ہیں، بڑے بڑے مقابلے کیے ہیں۔ اس نے دیسی بولیوں کو نیچا دکھایا، اس لیے کہ وہ مقامی اور محدود نہیں۔ اس نے فارسی کو نکالا اس لیے کہ وہ غیر تھی۔ اس نے دوسری بولیوں پر فوقیت اور فضیلت حاصل کی اس لیے کہ اس میں ہندو مسلم دونوں کی تہذیبوں اور دونوں کے اتحاد کی جھلک تھی اور اس لیے کہ اس کے حامیوں نے اس کے سنوارنے، بنانے اور ترقی دینے میں دل و جان سے جد و جہد کی اور اپنی کوششوں میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اب پھر وہی چال آپڑی ہے، شہ مات بچنے کے لیے پہلے سے زیادہ جد وجہد اور سعی کی ضرورت ہے۔ اردو کو جو حیثیت اور اہمیت حاصل ہو چکی ہے، اسے قائم رکھنا حامیان اردو کا فرض ہے۔ اگر ہم نے اسی ہمت اور حوصلے سے کام لیا جو بزرگوں کا شیوہ تھا تو بلاشبہ جیت ہماری ہے۔ دل میں لگن ہو اور نیت میں خلوص تو آدمی کیاکچھ نہیں کر سکتا۔
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا جو چیز سب سے قریب ہوتی ہے، اس پر نظر نہیں پڑتی۔ کام کے لیے بہت وسیع میدان ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں، ایک زبان کے علم و ادب میں اضافہ اور ترقی، دوسرا زبان کی اشاعت۔ جن لوگوں کو قدرت نے صلاحیت عطا کی ہے (بشرطے کہ ان کا صحیح اندازہ کیا گیا ہو) وہ علمی و ادبی تحقیقی کام کریں جن میں یہ استعداد نہیں وہ اشاعت میں کوشش کریں۔ اردو کتابیں اور رسالے پڑھیں، دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔ گھروں میں خاص کر لڑکیوں اور عورتوں کو اردو پڑھائیں، اردو بولیں، لکھیں، خط پتر اردو میں لکھیں، نام کی تختیاں اردو میں ہوں، حساب کتاب اردو میں لکھا جائے۔ جہاں اردو کے حق میں ناانصافی ہوتی ہو اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ان پڑھوں کو پڑھائیں، جہاں اردو کا رواج کم ہو وہاں اسے رواج دیں، جو ادارے اردو کی ترقی و اشاعت کا کام کر رہے ہیں، ان سے تعاون کریں، ان کی مدد کریں۔ غرض اس قسم کے سیکڑوں کام ہیں جو ہر شخص اپنی بساط اور حالات کے مطابق کر سکتا ہے۔
امداد کے متعلق ایک بہت پرانا اور نہایت پامال اور فرسودہ مقولہ ہے، تاہم یاد رکھنے کے قابل ہے۔ دامے، قدمے، سخنے۔ جس کسی نے یہ مقولہ بنایا تھا وہ بڑا دانشمند تھا۔ اس کی عقل مندی اس ترتیب میں ہے جو اس نے قائم کی ہے۔ سب سے مقدم ’’دامے’‘ کو رکھا ہے۔ یہ بڑا ٹیڑھا معاملہ ہے۔ کہتے ہیں ’’دینا‘‘ بڑی مشکل ہے لیکن ’’لینا‘‘ بھی کچھ آسان نہیں۔ اس مشکل کو آسان کیجئے۔ دینے کی عادت ڈالیے اور اتنا دل کھول کردیجیے کہ مانگنے کی حاجت نہ رہے۔ دوسرا درجہ ’’قدمے’‘ کا ہے یعنی جو دام نہیں دے سکتے وہ جد و جہد اور سعی کریں۔ آخری وجہ ’’سخنے’‘ کا ہے۔ لیکن آج کل معاملہ بر عکس ہو گیا ہے۔ ’’سخنے’‘ اول ہو گیا ہے اور ’’دامے’‘ آخر۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں اور کام کم۔
زیادہ تقریریں کرنے سے قوت عمل ضعیف ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کام ضعیف ہیں۔ جو شخص اور قومیں کام سے جی چراتی ہیں انہیں کبھی آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔ انسان کی نجات استقلال سے محنت اور کام کرنے میں ہے۔ کسی کو باتیں اور تقریریں کرنے کا حق نہیں۔ جس نے کچھ کرکے نہ دکھایا ہو۔ خالی باتیں طبل تہی کی آوازیں ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے گھروں، کالجوں اور چائے خانوں اور دفتروں میں جلی قلم سے جگہ جگہ یہ لکھ دیا جائے، ’’باتیں کم اور کام زیادہ۔’‘
فردوسی نے کیا خوب کہا ہے،
بزرگی سراسر ز گفتار نیست
دو صد گفتہ چوں نیم کردار نیست
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |