Jump to content

حسن بے پردہ کی گرمی سے کلیجہ پکا

From Wikisource
حسن بے پردہ کی گرمی سے کلیجہ پکا
by مظفر علی اسیر
316962حسن بے پردہ کی گرمی سے کلیجہ پکامظفر علی اسیر

حسن بے پردہ کی گرمی سے کلیجہ پکا
تیغ کی آنچ سے گھر میں مرے کھانا پکا

جنس دل لے کے نہ جاؤں میں کسی اور کے پاس
آپ بیعانہ اگر دیجئے پکا پکا

ہر طرح ہاتھ اٹھانا ہے جہاں سے مشکل
بیٹھ رہنے کو بھی گھر چاہئے کچا پکا

ہے وہ شاعر جو پڑھے بزم سخن میں اشعار
معتبر ہے جو کچہری میں ہو چہرہ پکا

خام طبعی سے تمہارے ہے بہت تنگ اسیرؔ
کیجیئے وصل کا اقرار تو پکا پکا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.