حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
Appearance
حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
گنہ عشق کب معاف ہوا
لے لیا شکر کر کے ساقی سے
درد اس میں ہوا کہ صاف ہوا
تیغ قاتل پر اپنا خون جم کر
مخمل سرخ کا غلاف ہوا
زہر پرہیز ہو گیا مجھ کو
درد درماں سے المضاف ہوا
خاکساری کی ہو چکی معراج
سینہ اپنا زمین صاف ہوا
کمر یار نے دکھائی آنکھ
مردم دیدہ خال ناف ہوا
وعدہ جھوٹا نکردہ مرد نہیں
قول سے فعل جب خلاف ہوا
فاتحہ کو جو وہ پری آئی
سنگ قبر اپنا کوہ قاف ہوا
اس کمر کے ثبوت میں عاجز
فکر کر کر کے موشگاف ہوا
رند مشرب ہوں مجھ کو کیا ہووے
مذہبوں میں جو اختلاف ہوا
وہ دہن ہوں نہ نکلا حرف غرور
وہ زباں ہوں نہ جس سے لاف ہوا
گرد اس کوچہ کے پھرا آتشؔ
حاجی سے کعبہ کا طواف ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |