حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
Appearance
حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
پر ہمیں تو بہار و باغ لگا
گھر سے جوں ماہ بے حجاب نکل
اب تو اے شمع رو چراغ لگا
بادشاہوں کی بزم عشرت سے
اپنا مت گوشۂ فراغ لگا
آتشیں اشک ایک دم جو تھما
خانۂ دیدہ بے چراغ لگا
لے خبر اب تو ساقیٔ سر دست
خشک ہونے مرا دماغ لگا
کس کو یہ خون دل ملی دولت
اس کے ہونٹوں سے جا ایاغ لگا
دل گم گشتہ کا مرے حسرتؔ
لگ سکے تو کہیں سراغ لگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |