حسن ہر نونہال رکھتا ہے
Appearance
حسن ہر نونہال رکھتا ہے
کوئی تجھ سا جمال رکھتا ہے
مجھ سے ہو تیرے جور کا شکوہ
یہ بھلا احتمال رکھتا ہے
تجھ سے کچھ اپنا عرض حال کرے
دل کب اتنی مجال رکھتا ہے
ماہ کیا ہے کہ جس سے دوں تشبیہ
حسن تو بے زوال رکھتا ہے
جیتے جی اس سے عاشق مہجور
کب امید وصال رکھتا ہے
تو کہاں اور اس کا وصل کہاں
یہ خیال محال رکھتا ہے
جی میں بیدارؔ تیرے ملنے کا
آہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |