Jump to content

حیف ہے ایسی زندگانی پر

From Wikisource
حیف ہے ایسی زندگانی پر
by میر محمدی بیدار
315214حیف ہے ایسی زندگانی پرمیر محمدی بیدار

حیف ہے ایسی زندگانی پر
کہ فدا ہو نہ یار جانی پر

تیری گل کاری ابر ہو برباد
گر فدا ہو نہ یار جانی پر

حال سن سن کے ہنس دیا میرا
کچھ تو آیا ہے مہربانی پر

خون کشتوں کے ہو گیا دل کا
تیری دستار ارغوانی پر

رات بیدارؔ وہ مہ تاباں
سن کے رویا مری کہانی پر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.