حیف ہے ایسی زندگانی پر
Appearance
حیف ہے ایسی زندگانی پر
کہ فدا ہو نہ یار جانی پر
تیری گل کاری ابر ہو برباد
گر فدا ہو نہ یار جانی پر
حال سن سن کے ہنس دیا میرا
کچھ تو آیا ہے مہربانی پر
خون کشتوں کے ہو گیا دل کا
تیری دستار ارغوانی پر
رات بیدارؔ وہ مہ تاباں
سن کے رویا مری کہانی پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |