خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے
خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے
گل مست ہے چمن میں پیالہ پیے ہوئے
امسال فصل گل میں وہ پھر چاک ہو گئے
اگلے برس کے تھے جو گریباں سیے ہوئے
ہم بھی ہوا میں اک گل نوخیز حسن کے
برسوں پھرے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
دوکانیں مے فروشوں کی کب سے پڑی ہیں بند
رہ رہ گئے ہیں قفل دیے کے دیے ہوئے
عشق صنم ہے اس میں ہیں خودداریاں ضرور
اے دل خدا کے واسطے خود کو لیے ہوئے
مرشد ہے عشق ہم ہیں مرید اس جناب کے
برسوں گزر گئے ہیں پیالہ پیے ہوئے
وہ آ کے مسکرائے اس انداز و ناز سے
کھل کھل گئے جو زخم جگر تھے سیے ہوئے
روز ازل سے دخل وجود و عدم میں ہے
دونوں علاقے ہیں یہ ہمارے لیے ہوئے
ہیں بت پرست دیر میں حاجی ہیں کعبہ میں
طالب رضائے دوست کے دھرنے دیے ہوئے
میدان امتحاں میں ہمیں بھیج دیجیے
کہیے انہیں یہ کام ہیں جن کے کیے ہوئے
نامرد اپنے وادی میں رکھے گا کیا قدم
سر ہو مہم عشق نہ بے سر دیے ہوئے
کس کس طرح کا بھیس بدل کر پہنچتے ہیں
عاشق ہوئے نہ آپ کے بہروپئے ہوئے
حاصل ہوا بتوں سے نہ عاشق کو مدعا
روشن کبھی نہ دیر میں گھی کے دیے ہوئے
تعویذ و نقش کچھ نہیں کرتے اثر وہاں
سارے یہ کھٹکھٹے ہیں ہمارے کئے ہوئے
اک شب ہوئی نصیب سلیماں نہ جو پری
ہم روز سوئے اس کو بغل میں لیے ہوئے
آنکھوں میں پھرتی ہیں جو وہ آنکھیں نشیلیاں
دو بوتلوں کی مستی ہے بے مے پیے ہوئے
باندھا جو چست چست مضامین نو کے ساتھ
بندش سے میری تنگ بہت قافیے ہوئے
عاشق مزاج روتے ہیں پڑھ پڑھ کے بیشتر
اشعار رندؔ کے نہ ہوئے مرثیے ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |