خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
Appearance
خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
خوشی تبھی ہو کہ جب سن لوں دل ربا خوش ہے
ذرا بھی بگڑے تو بگڑے زمانہ سب مجھ سے
خوشی ہے وہ تو ہر اک دوست آشنا خوش ہے
پڑا ہوں جب سے کہ بیمار ہو کے میں گھر میں
ہر ایک غیر عداوت سے پھرتا کیا خوش ہے
مگر ہے اس کی عنایت تو غم نہیں کچھ بھی
وہ مجھ سے خوش رہے بس پھر تو دل مرا خوش ہے
میں ایک غم نہیں سو جان پر اٹھا لوں گا
مرے ستانے سے کہہ دے کہ دل ترا خوش ہے
سبب تو کچھ نہیں معلوم ہائے کیا میں کروں
وہ آپ ہی آپ کئی دن سے مجھ سے ناخوش ہے
وہ بات کون سی ہے جو نہیں سمجھتے ہم
فریب دے کے ہمیں کیوں تو بے وفا خوش ہے
نظامؔ کون سا دن ہو جو واں پہ جاؤں میں
کہیں وہ ہنس کے مزاج اب تو آپ کا خوش ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |