خدا اثر سے بچائے اس آستانے کو
Appearance
خدا اثر سے بچائے اس آستانے کو
دعا چلی ہے مری قسمت آزمانے کو
نہ پوچھئے کہ محبت میں مجھ پہ کیا گزری
نہ چھیڑئیے مرے بھولے ہوئے فسانے کو
یہ شعبدے یہ کرشمے کسے میسر تھے
تری نگاہ نے سکھلا دیئے زمانے کو
چمن میں برق نے جھانکا کہ ہم لرز اٹھے
اب اس سے آگ ہی لگ جائے آشیانے کو
خیال یار بھی کھویا ہوا سا رہتا ہے
اب ان کی یاد بھی آتی ہے بھول جانے کو
نگاہ لطف نہ فرما نگاہ ناز کے بعد
جگر میں آگ لگا کر نہ آ بجھانے کو
زمانہ بر سر آزار تھا مگر فانیؔ
تڑپ کے ہم نے بھی تڑپا دیا زمانے کو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |