Jump to content

خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا

From Wikisource
خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا
by سائل دہلوی
298134خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالاسائل دہلوی

خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا
تو صحن چمن میں نہ گل ہو نہ لالہ

لیا تیرے عاشق نے برسوں سنبھالا
بہت کر گیا مرنے والا کسالا

پئے فاتحہ ہاتھ اٹھاوے گا کوئی
سر تربت بیکساں آنے والا

اسی گریہ کے تار سے میری آنکھیں
بنا دیں گی ندی بہا دیں گی نالہ

بٹھا کر تمہیں شمع کے پاس دیکھا
تم آنکھوں کی پتلی وہ گھر کا اجالا

خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا

دیا حکم ساقی کو پیر مغاں نے
پئے محتسب جام و مینا اٹھا لا

یہ سنتے ہی مے خوار بولے خوشی سے
ہمیں سا ہے یہ نیک اللہ والا

حقیقت میں سائلؔ نے ذوق ادب سے
جہاں تک اچھالا گیا نام اچھالا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.