Jump to content

خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو

From Wikisource
خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
by یاس یگانہ چنگیزی
318431خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہویاس یگانہ چنگیزی

خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پیرہن حسن تار تار نہ ہو

برنگ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو

خزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وفا کا امیدوار نہ ہو

ٹھہر ٹھہر دل وحشی بہار آنے دے
ابھی سے بہر خدا اتنا بے قرار نہ ہو

ٹپک کے آنکھوں سے آئے لہو جو دامن تک
تو اس بہار سے بہتر کوئی بہار نہ ہو

حیا کی بات ہے اب تک قفس میں زندہ ہوں
چمن میں جاؤں تو نرگس سے آنکھ چار نہ ہو

بہار آئی ہے گھٹ گھٹ کے جان دے بلبل
قفس میں نکہت گل کی امیدوار نہ ہو

اشارۂ گل و بلبل پہ چشمک نرگس
الٰہی راز کسی کا بھی آشکار نہ ہو

بچھا ہے دام تمنا اسیر ہو بلبل
قفس کی یاد میں اس طرح بے قرار نہ ہو

اسیر دام نہ ہونا ذرا سنبھل اے دل
خیال گیسوئے پر خم گلے کا بار نہ ہو

جو دیکھ لے مجھے ساقی نشیلی آنکھوں سے
یہ مست پھر کبھی شرمندۂ خمار نہ ہو

عبث ہے ذکر شراب طہور اور واعظ
وہ بات کر جو کسی دل کو ناگوار نہ ہو

وصال جب نہیں ممکن تو دل پہ جبر اچھا
وہ کیا کرے جسے دل ہی پر اختیار نہ ہو

وہ تیر کیا جو کسی کو نہ کر سکے بسمل
نگاہ ناز وہ کیا ہے جو دل کے پار نہ ہو

مزاج یار مکدر نہ ہونے پائے یاسؔ
بلند دامن زیں کہیں سے غبار نہ ہو


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.