Jump to content

خطبۂ صدارت اردو کانفرنس

From Wikisource
خطبۂ صدارت اردو کانفرنس
by مولوی عبد الحق
319567خطبۂ صدارت اردو کانفرنسمولوی عبد الحق

‏(آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ضمن میں علی گڑھ میں ایک اردو کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے ‏مولانا عبدالحق صاحب نے ۲۸‏‎/‎اپریل ۱۹۳۷ء کی شب کو ذیل کا خطبہ پڑھا تھا۔ مرتب)

‏گری زوں سوِستان کا ایک پرگنہ ہے اور پہاڑی علاقہ ہے۔ اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں، ان کے ‏ہاں قدیم سے ایک روایت مشہور چلی آرہی ہے کہ خلاق عالم نے فرشتہ کلمائیل کو بیجوں بھرے تھیلے دیے اور فرمایا کہ جاؤ تم دنیا کاایک چکر لگاؤ ‏اور زبانوں کے یہ بیج لوگوں کے سروں میں بوتے چلے جاؤ۔ فرشتے نے ارشاد خداوندی کی تعمیل کی اور یہ بیج بنی نوع انسان کے دماغوں میں جم ‏گئے اور فوراً اگنے شروع ہوئے اور زبانیں چشمے کی طرح ابلنے لگیں۔ ‏جب فرشتہ کلمائیل اپنے تھیلے خالی کر چکا اور خلاق عالم کے پاس واپس آنے کو ہوا تو یہ دیکھ کر اسے سخت ندامت اور پریشانی ہوئی کہ گری زوں ‏کا علاقہ چھٹ گیا ہے۔ اس نے خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اس فروگزاشت کے متعلق عرض کیا۔ خدا نے مختلف تھیلوں کے ملے جلے بیج جو بچ ‏رہے تھے، اسے دیے اور کہا کہ جاؤ، یہ وہاں جاکر بوآؤ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پہاڑی آبادی میں طرح طرح کی زبانیں اور بولیاں پائی جاتی ہیں۔ ‏یہ نقل بہ نسبت گری زوں کے ہندستان پر زیادہ صادق آتی ہے، جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں، جن کی تعداد بیسیوں نہیں ‏سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس ہجوم میں ایک زبان ایسی بھی نظر آتی ہے جو ملک کے اکثر علاقوں میں بولی جاتی ہے اور تقریباً ہر جگہ ‏سمجھی جاتی ہے۔ یہ زبان ہندستانی یا اردو ہے جس کا ادب نظم ونثر میں نویں صدی ہجری سے مسلسل موجود ہے۔ یہ ہمارا ہی دعویٰ نہیں بلکہ ‏اس کی شہادت غیروں نے بھی دی ہے اور یہ شہادتیں یوروپی سیاحوں کی تحریروں میں سترہویں صدی کی ابتدا سے بعد تک برابر ملتی ہیں۔ ‏ایک موقع پر کسی خاص معاملے میں ابی سینیاکے سفیر خوجہ ‏‎(Movaad)‎‏ سے چند استفسارات کیے گئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ ’’فلاں ‏شخص نے آپ کی حضوری میں کس زبان میں گفتگو کی؟‘‘ وہ جواب دیتے ہیں، ’’ہندستانی زبان میں۔ جس کی ترجمانی دیراکسیلنسیز دی ہائی ‏گورنمنٹ آف بٹاویا کے سیکریٹری نے کی۔‘‘ یہ واقعہ سنہ ۱۶۹۷ء کا ہے۔ اس زمانے کا ایک سیاح لکھتا ہے کہ ’’دربار کی زبان تو فارسی ہے مگر ‏عام بول چال کی زبان ’اندستان‘ہے۔‘‘ (فرائر)‏یہ اگلی باتیں ہیں، انہیں جانے دیجیے۔ کمپنی کے زمانے کو لیجیے۔ جب ایسٹ انڈیا نے اپنا کاروبار یہاں جمایا اور تجارت سے سیاست کی طرف ‏قدم بڑھایا تو تجارت اور سیاست دونوں اغراض کی خاطر تازہ ولایت نوکار انگریز ملازموں کی تعلیم کے لیے ملک کی ایسی زبان کا انتحاب کیا جو ‏اپنی عام مقبولیت اور وسعت کی وجہ سے سب سے زیادہ کارآمد تھی۔ یہ زبان ہندستانی یعنی’اردو‘ تھی۔ اس کے لیے ایک بڑامدرسہ قائم ‏کیا گیا جو فورٹ ولیم کالج کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں قابل زبان داں ہندی ملازم رکھے گئے جو نوجوان نوواردوں کوہندساہنی زبان کی ‏تعلیم بھی دیتے تھے اور کتابیں بھی تالیف اور ترجمہ کرتے تھے۔ اس کالج کے معلم اول ڈاکٹر جان گلکرسٹ جو اردو کے محسن اور اس کے ‏شیدائیوں میں سے تھے، اس زبان کو ‏‎(Grand Popular Speech of India)‎‏ 1 کہتے ہیں۔ ‏ایک دوسری جگہ وہ اس کی نسبت لکھتے ہیں کہ ’’یہ نہایت کارآمد اور عام زبان ہے جس پر ہندستان فخر کر سکتا ہے۔‘‘ وہ اپنی اسی کتاب برٹش ‏انڈیا مونی ٹر میں لکھتے ہیں کہ ’’چونکہ ہندستانی، ہندستان کی سب سے زیادہ عام زبان ہے اور جو ہمیں شب وروز اپنے دیسی افسروں، ‏مدرسوں، ملازموں اور دیگر متعلقین سے گفتگو کرنے میں استعمال کرنی پڑتی ہے، اس لیے نحوی اصول کے ساتھ اسے جس قدر جلد سیکھا ‏جائے اسی قدر بہتر ہے۔‘‘ 2اس زبان کی تعلیم کے متعلق گورنمنٹ کے احکام نقل کرنے کے بعد وہ ان برٹش افسروں اور دیگر اصحاب کے نام ایک پیام بھیجتا ہے جو ‏ہندستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ پیام یہ ہے،‏‏’’جب سے متذکرہ بالا احکام نافذ ہوئے ہیں، بنگال گورنمنٹ نے بنگال، مدراس، اور بمبئی کے ملکی اور فوجی علاقوں کے لیے مشرقی تعلیم ‏کا باقاعدہ انتظام کیا ہے، ان سب میں ہندستانی بجا طور پر مقدم اور اہم خیال کی گئی ہے اور اس لیے تمام رائٹروں اور کیڈٹوں کو ہندستان پہنچنے ‏پر سکھائی جاتی ہے۔ ‏ہندستانی زبان کاعلم برٹش انڈیا میں نہ صرف ہر ایک ایسے اجنبی کے لیے لازم ولابد ہے جو عام طور پر اہل ملک سے ذاتی تعلقات رکھتا ہے ‏بلکہ اس سے فارسی اور دوسری مشرقی زبانوں کی تحصیل کا رستہ بھی کھل جاتا ہے، جہاں وہ ہندستانی کے ذریعے سے جو ہندستان کے باشندوں ‏اور خصوصاً منشیوں یا دیسی سوداگروں کی دیسی زبان ہے، ان مقامی قدیم زبانوں کو بہت جلد سیکھ لیتا ہے۔ ‏بحری اور بری فوج میں نیز ہندستان کے خانگی معاملات میں کسی زبان کا ایسا عام رواج نہیں جیسا ہندستانی کاہے اور کیڈٹوں کو جو فوجی ‏اکیڈیمیوں میں اسے پڑھتے ہیں یا فوجی تعلیم حاصل کرتے ہیں، کسی اور زبان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ اکیڈیمیاں بنگال، مدراس اور بمبئی ‏میں قائم کی گئی ہیں۔ جس طرح یورپ میں ایک تعلیم یافتہ شخص کے لیے بعض جدید اور قدیم زبانوں کا علم مفید اور موجب زینت ‏سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ہندستان میں سنسکرت، فارسی، عربی وغیرہ کا علم بھی وہی درجہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ہر ‏شخص کے لیے ہندستانی کا جاننا ایساہی ناگزیر ہے جیسا کہ انگلستان والوں کے لیے انگریزی کا جاننا اور اسی لیے ان حضرات کا جو ایسٹ انڈیز ‏کو آنا چاہتے ہیں، سب سے ضروری اور بڑا وصف یہی ہونا چاہیے کیونکہ دیر سویر ان پر صاف کھل جائےگا کہ ہندستانی کے مقابلے میں یہ علمی ‏زبانیں دوسرے درجے پر ہیں اور بعد میں یہ زبانیں اس ملک میں زیادہ آسانی اورکم خرچ میں سیکھی جا سکتی ہیں۔ ‏اگر یہ دلیل انگلستان وبیرون انگلستان کے چند سالہ تجربے کی بناپر معروف ومسلم واقعات پرمبنی ہے تو پبلک بجا طور پر یہ امید رکھتی ہے کہ ‏‏’’ہرفورڈ‘‘ اور ’’مارلو‘‘ کے سول اور ملٹری کالجوں کے شعبوں میں ہندستانی زبان کی تعلیم ان طلبہ کے لیے جو ہندستان آنا چاہتے ہیں، سب ‏سے مقدم خیال کی جائےگی کیونکہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے انگلستان کے جج اور سول اور ملٹری کے عہدہ دار خود وہ کیسے ہی عالم و فاضل ‏کیوں نہ ہوں، وہ ہماری مادری زبان نہیں جانتے۔ اسی طرح ہندستان میں ہندستانی کا وہی درجہ ہے جو انگریزی کا برطانیہ میں یا ترکی کا اس کی ‏سلطنت میں اور یہ ایک ایسی بات ہے جو راہ چلتا بھی سمجھ سکتا ہے۔‘‘ ‏ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں مدراس کے ایک انگریز افسر کا خط بھی نقل کا ہے، جس میں مفصلہ ٔ ذیل اقتباس پڑھنے کے قابل ہے۔ (خط ‏‏۱۹‏‎/‎جون سنہ ۱۸۰۲ء کا لکھا ہوا ہے۔) ‏‏’’ہندستانی بولی کے متعلق میرا کچھ کہنا غیر ضروری ہے کیونکہ اس کی وسعت اور قوت ان تمام اشخاص پر کافی طور سے آشکارا ہے جن کا تعلق ‏ہندستان کے کاروبار یا ادب سے ہے، میری رائے میں صرف اس بولی کا معقول علم اس گورنمنٹ کے علاقوں کے ہر حصے کے لیے بالکل کافی ‏ہے۔۔۔ نواب آف ارکاٹ کے تمام علاقوں اور ٹیپو سلطان کی مملکت بالاگھاٹ مں ہندستانی سے وہ سب اشخاص واقف ہیں جو سرکاری دفاتر ‏میں مامورہیں، نیز عام لوگوں کی بڑی تعداد اس زبان کو جانتی ہے۔‘‘ ‏ڈاکٹرصاحب اپنی ایک اور تصنیف ’’ایسٹ انڈیا گائڈ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہندستان کے مختلف اضلاع ‏اور صوبوں مں خاص خاص بولیاں بولیا جاتی ہیں لیکن ہم جرأت کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اگر فرداً فرداً دیکھا جائے تو ان میں کوئی بھی ‏عام طور پر ایسی مفید اور ضروری نہیں جیسی ہندستانی۔۔۔ ‏اب ہم اس دعوے کی تائید میں چند دلائل پیش کرتے ہیں جو بلاشبہ اس کی صداقت کاتشفی بخش اور دل نشین ثبوت ہوں گی۔ ‏‏’’ہندستان کے وسیع ملک میں شاید ہی کوئی ایسامسلمان پایا جائےگا جو مقامی اور ذاتی حالات یعنی خاندانی و تعلیمی وغیرہ کے لحاظ سے کم بیش ‏شستگی اور خوبی سے ہندستانی زبان نہیں بولتا یا نہیں سمجھتا۔ نیز ہر شریف ہندو یا وہ جس کا ذرا سابھی تعلق کسی مسلمان حکومت یا برٹش ‏گورنمنٹ سے ہے، اپنے منصب اور حیثیت کے لحاظ سے ضرور اس زبان سے کچھ نہ کچھ واقف ہے۔ ‏علاوہ اس کے یہ ایک مشترک ذریعہ ہے، جس کے توسط سے اہل ملک عموماً اور متعدد غیر ملکوں کے اکثر باشندے جو اس ملک میں بس گئے ‏ہیں، اپنی ضرورتوں اور خیالات کا ایک دوسرے پر اظہار کرتے ہیں۔ اس بیان کی صداقت کی تائید میں ہم خود ایک شہادت ہیں اور ہماری ‏طرح پر تگالی، ولندیزی (ڈچ)، فرانسیسی، ڈین، عرب، ترک، یونانی (گریگ) ارمنی، گرجی، ایرانی، مغل اور چینی بھی ہیں جو اکثر باہم ‏ہندستانی میں بات چیت کرتے ہیں، کیونکہ ان کی اپنی زبانوں کے مقابلے میں ہندستان کی یہ لنگوافرینکا زیادہ سہولت بخش ہے۔ ہندستان کی ‏تمام فوجوں میں یہ زبان عام طور پر استعمال ہوتی ہے، اگر چہ ان افواج کے اکثر افراد اپنی اپنی حکومتوں، علاقوں، صوبوں اور اضلاع کی بولیوں ‏کو مادری زبان کی حیثیت سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ ‏تقریباً کیپ کا مورن سے لے کر کابل تک سارا ملک جو طول میں دو ہزار میل اور عرض میں ۱۴۰۰ میل ہے، اس میں جہاں جہاں گنگا بہتی ‏ہے شاید ہی کسی بڑے گاؤں، قصبے یا شہر میں، جسے مسلمانوں نے فتح کیا یا جہاں مسلمان آباد ہیں کوئی ایساشخص ملےگا جو اچھی خاصی طرح ‏ہندستانی نہ جانتاہو اور گنگا سے بھی بہت پرے، نیز مشرقی جزائر کے سوا حل پر بھی یہ زبان رائج ہے اور اس قدر معروف ہے کہ بہت آسانی ‏سے سمجھی جا سکتی ہے۔ ‏اگرچہ ہندستانی میں نثر کی بہت سی کتابیں مثلاً تاریخی یاعلمی تالیفات نہیں ہیں تاہم بہت سے شستہ قصے اور دلکش نظںیہ موجود ہیں۔ عام ‏طور پر خانگی، تجارتی اور فوجی اور نہایت اہم سیاسی معاملات کے متعلق مراسلت اسی زبان میں کی جاتی ہے۔ اور اس موقع پر ہمیں اس پر بھی ‏غور کرنا چاہیے کہ دیسی علما کا درس اور مضامین ادب پر ان کی تمام بحثیں اور دلائل اسی زبان میں کی جاتی ہیں اور ہر حالت میں یہ دیکھا گیا ہے ‏کہ جب کبھی ہندستان کا کوئی باشندہ اپنے کسی خیال یا مضمون کو کسی دوسری زبان میں لکھنا یا ترجمہ کرنا چاہتا ہے تو قبل اس کے کہ وہ اسے ‏فارسی مکتوب کے طور پر لکھے یا کوئی سیاسی تحریر قلم بند کرے، وہ ہمیشہ اپنے خیالات کو ہندستانی میں ترتیب دیتا ہے اور اپنا مفہوم اسی زبان ‏میں ادا کرتا ہے۔ ‏اگر یہ تمام بیانات اور دلائل صداقت پر مبنی ہیں تو ان کی قوت کو کون چیز کمزور کر سکتی ہے۔ اوپر کے صغریٰ کبریٰ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ‏سوداگر، سیاح، وکیل، ملا یا پادری، فلسفی، طبیب، غرض ہر شخص کے لیے جو ہندستان میں کسی قسم کا بھی کوئی کام کر رہا ہے یایہاں امن و ‏خوشی سے رہنا چاہتا ہے ہندستانی زبان بہ نسبت کسی دوسری زبان کے عموماً نہایت ضروری اور مفید ہے۔ اور اس اعتبار سے سب سے مقدم ‏اسی کا سیکھنا ہے اور اس کے بعد بوجہ ان اعلیٰ فوائد کے جو اسے باقی دوسری زبانوں کے مقابلے میں بدرجۂ اتم حاصل ہیں، یہ نہایت درجہ قابل ‏قدر اور لائق مطالعہ ہے۔‘‘ ‏کول بروک جوبڑے عالم گزرے ہیں، ایشیاٹک ری سرچز کی ساتویں جلد میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ شستہ زبان جو ہندستان اور دکن کے ہر حصے میں ‏بولی جاتی ہے یا جو تعلیم یافتہ دیسیوں نیز ہندستان کے بہت سے صوبوں کے ناخواندہ لوگوں میں باہمی گفتگو کا مشترک ذریعہ ہے اور جسے ‏تقریباً ہر جگہ نیز ہرگاؤں کے اکثر باشندے سمجھتے ہیں۔‘‘ ‏ڈاکٹر گلکرسٹ نے اپنے ایک شاگرد رشید کا خط نقل کیا ہے، جوبہت دلچسپ اور حقیقت افروز ہے۔ اس کے کاتب مشہور مسٹر مٹکاف ہیں جو ‏اس وقت دلی کے اسٹنٹ رزیڈنٹ تھے اور بعد میں رزیڈنٹ کیا دلی کے آقا ہو گئے تھے۔ یہ خط ۲۹‏‎ /‎اگست سنہ ۱۸۰۶ء کا لکھا ہوا ہے۔ اس سے ‏معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں اردو کی کیا حیثیت اور وقعت تھی۔ وہ لکھتے ہیں،‏‏’’میرا خیال ہے کہ میں آپ کو اس معاملے کے بارے میں قابل اطمینان اطلاع مہیا کر سکتا ہوں، جس کے ملق۶ آپ کو قدرتی طور پر تشویش ‏ہے۔ ہندستان کے ہر حصے میں جہاں جہاں میں ملازمت کے سلسلے میں رہا، یعنی کلکتے سے لاہور کے قرب وجوار تک اور کو ہستان کمائیوں سے ‏نربداتک، افغانوں، راجپوتوں، جاٹوں، سکھوں اور مختلف اقوام میں جو ان ممالک میں آباد ہیں، جس میں میں نے سفر کیا ہے، میں نے اس ‏زبان کا عام رواج دیکھا، جس کی تعلیم آپ نے مجھے دی تھی۔ یوں کہنے کو بہت سی بولیاں اور لہجے ہیں۔ اپنی بات سمجھانے یا دوسرے کی سمجھنے ‏کے لیے اکثر بہت صبر کی ضرورت ہوتی ہے، ہمارے کان ہمیشہ ان آوازوں سے آشنا نہیں ہوتے جو ہم سنتے ہیں۔ اول اول دیسی لوگ ہمارے ‏لہجے اور ڈھنگ کو بغیر باربار دہرائے نہیں سمجھتے۔ یہ دقت اکثر مقامات پر واقع ہوتی ہے۔ ‏لیکن میں ذاتی تجربے نیز اطلاعات کی بنا پر جو مجھے دوسروں سے حاصل ہوئی ہیں، پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں کیپ ‏کامرون سے کشمیر تک اور آواسے دریائے سند ھ کے دہانے تک پیدل چلا جاؤں تو مجھے ہر جگہ ایسے لوگ ملیں گے جو ہندستانی بول سکتے ہیں۔ ‏میرے کہنے کایہ منشا نہیں کہ میں ایسے لوگ مطلق نہ پاؤں گا جو یہ زبان نہیں بول سکتے، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اس وسیع خطے میں جس کامیں ‏نے ذکر کیا ہے، مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بلکہ ایسانہ ہو تو تعجب ہے۔ لیکن ہندستانی ہی وہ زبان ہے جو عام طور پر کارآمد ہے اور میری ‏رائے میں اسے وہ عام وسعت حاصل ہے جو دنیا کی کسی زبان کو نصیب نہیں۔ میں ابھی اس زبان میں کچا ہوں لیکن جس قدر میرا جہل ‏زیادہ ہے، اسی قدر میری شہادت قوی ہے اور جہاں تک میری شہادت کا تعلق ہے ہندستانی کا بول بالا رہے گا۔ میر ے خیال میں دنیا خاص ‏طور پر آپ کی رہین منت ہے اور اسے آپ کی ان پرجوش اور مخلصانہ کوششوں کے لیے آپ کا شکر گزار ہونا چاہیے جو آپ نے مشرقی ادب کی ‏اس نہایت اہم شاخ کی اشاعت و ترقی میں فرمائی ہیں۔ ‏زبان دانِ اردو ہے ایسا کہ آج ‏ہے قانون ہندی کواس سے رواج ‏میں نے جو کسی قدر طویل اقتباسات پڑھ کر سنائے ہیں، اس سے میرا منشا یہ جتانا تھا کہ اردو زبان خاص کر اٹھارہویں صدی کے آخر اور ‏انیسویں صدی کی ابتدا میں اپنی مقبولیت اور عالم گیری میں سب پر سبقت لے گئی تھی اور یہ رفتار اس کی برابر جاری رہی ہے۔ چنانچہ ‏موسیوں دیوپان نے جو انسٹی ٹیوٹ کے رکن اور سینٹ کے ممبر اور فاضل شخص تھے، اپنی کتاب’’اقوام کی پیدائش قوت میں‘‘ ایک باب ‏ہندستانیوں کے متعلق لکھا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ برطانوی ہند کی مردم شماری سرکاری کاغذات کے مطابق اس وقت ۲۸ کروڑ، ۴۰ لاکھ ‏ہے۔ آپ کو معلوم رہنا چاہیے کہ ان میں تقریباً ۲۰ کروڑ نفوس کے درمیان جو چیز ایک مشترک رشتے کا کام دیتی ہے، وہ اردو زبان ہے۔ یہ ‏زبان پورے یورپ کے برابر رقبے کی سرزمین میں بولی جاتی ہے۔ 3گارساں دتاسی جو اردو زبان کے پروفیسر اور عالم اور اس کے بڑے حامی تھے اور جنہوں نے اپنے زمانے میں اردو کی یادگار خدمت کی اور ایسی ‏عمدہ کتابیں لکھیں اور زبان کے متعلق ایسی قابل قدر معلومات مہیا کیں جو کوئی اہل زبان بھی اپنی زبان میں نہ کر سکا، سنہ ۱۸۶۵ء کے خطبے ‏میں کہے س ہیں، ‏‏’’بہرنہج لوگوں کا خیال ہندستانی کی نسبت کچھ ہی ہو لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ سارے ہندستان کی مشترک زبان بن گئی ہے، ‏دن بدن جو اس کی ترقی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے وہ پورے دیس کی زبان کہی جا سکتی ہے۔ اس مےلری کی نسبت کپتان ایچ۔ مورنے ‏جو مرکزی حکومت میں ترجمان کی خدمت پر فائز ہں ، اپنی رائے سے مجھے ان الفاظ میں مطلع کیا ہے،’’بلاشبہ کچھ عرصے کے بعد ہندستانی مشرق کی ایک نہایت اہم زبان کی حیثیت اختیار کر لےگی۔ اس زبان کے توسط سے لاکھوں اہل مشرق ‏تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔ ریل کی وجہ سے جو اندرون ملک میں ہزارہا میل کی مسافت میں پھیل گئی ہے، ہندستان اور وسط ایشیا کے لوگوں ‏کو اور بھی ملنے جلنے کا موقع ملا ہے۔ چنانچہ جب یہ لوگ ملتے ہیں تو ایک مشترک زبان کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ہندستانی زبان اس ‏مقصد کو بطریق احسن پورا کرتی ہے، اس لیے کہ اس کی ساخت میں ہندی فارسی، عربی کے عنصر شامل ہیں۔ اس زبان میں بدرجۂ اتم یہ ‏صلاحیت پائی جاتی ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے مقاصد پورا کرے۔ میرے خیال میں ہندستان کے قدرتی وسائل کی ترقی کے جس قدر ‏امکانات ہیں، اسی قدر ہندستانی زبان کو فروغ حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔‘‘ 4یہ وہ زمانہ ہے کہ اردو مقبول خاص و عام تھی اور اس کی مقبولیت کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ سنہ ۱۸۳۵ء کے بعد جب فارسی کے بجائے ‏اردو دفتری زبان قرار دی گئی تو کوئی آوازاس کے خلاف سننے میں نہیں آئی اور کسی نے یہ نہ کہا کہ اردو نہیں، فلاں زبان ہونی چاہیے۔ اس کی ‏یہ متفقہ مقبولیت ایک مدت تک برابر جاری رہی، چنانچہ گارساں دتاسی، بمبئی گزٹ مورخہ ۲۶ فروری سنہ ۶۱ء کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ‏بنگال، بہار اور اڑیسہ کے زمینداروں اور دوسرے باشندوں نے وائسراے گورنر جنرل بہادر کوایک عرض داشت بھیجی جس میں یہ ‏درخواست کی کہ جدید ہائی کورٹ میں کاروائی اردو زبان میں ہونی چاہیے۔ اس زمانے میں بمبئی کی نئی نئی یونیورسٹی قائم ہوئی تھی۔ سنہ ‏‏۱۸۶۰ء کے ڈگری کے امتحان میں اردو زبان بھی تھی اور اس کے نصاب میں باغ و بہار، اخلاق ہندی، مثنوی میر حسن اور دیوان ناسخ شریک ‏تھے۔ 5یہ وہ زمانہ تھاکہ ان صوبوں کے ہندو تعلیم یافتہ اور اہل قلم جہاں کی زبان اردو نہ تھی نیز انگریز مدبر اور حاکم تک عام جلسوں میں اردو میں ‏تقریریں کرتے تھے۔ چنانچہ سنہ ۱۸۶۱ ء میں مہاراجہ کشمیر کی گدی نشینی کے موقع پر جموں میں جو دربار ہوا اس میں مسٹر ڈیوس جو اس موقع ‏پر گورنمنٹ ہند کے نمائندہ تھے، جب نئے راجا کے سینے پر تمغے لگا چکے تو مہاراجا نے ان کی تقریر کا جواب اردو میں دیا۔ ‏سرجے۔ بی۔ گرانٹ، لفٹننٹ گورنر بنگال جب یورپ واپس جا رہے تھے تو اہل کلکتہ نے ۱۶‏‎/‎اپریل سنہ ۱۸۶۱ء کوان کے اعزاز میں ایک عام ‏جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسے کے صدر رادھا کانت دیو بہادر تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اردو میں تقریر کی۔ ان کے بعد راجا کالی کشن بہادر نے ‏جو مشہور مصنف گزرے ہیں، تقریر کی اور وہ بھی اردو میں تھی۔ نیز ایک جلسے مںے سرجان گرانٹ کی خدمت میں سیاس نامہ پیش کرنے کی ‏تحریک ہوئی جو متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ اس جلسے میں راجا اپرواکرشن نے اردو میں تقریر کی اور یہ تجویز پیش کی کہ کلکتہ مںس سرجان ‏گرانٹ کابت نصب کیا جائے۔ اسی طرح کلکتے کے ایک اور جلسے میں جو اس غرض سے منعقد کیا گیا تھا کہ انگلستان کے کپڑے کے کارخانوں کے ‏مزدوروں سے اظہار ہمدردی کیا جائے، مختلف مقرروں نے ہندستانی میں تقریریں کی اور راجا نرائن سنگھ نے اس جلسے میں تجاویز کی تائید ‏اردو میں کی۔ 6شاہ زادہ ویلز کی شادی کے موقع پر ہندستان میں ہر جگہ جلسے منعقد ہوئے اور ان میں ہندستانی زبان میں تقریریں کی گئیں۔ فروری سنہ ۱۸۶۲ ‏ء میں جب سرہنری منٹگمری لفٹننٹ گورنر پنجاب ریاست کپور تھلہ تشریف لے گئے تو اس موقع پر صاحب موصوف نے مشن اسکول کے ‏طلبہ کے سامنے ہندستانی میں تقریر کی۔ جنوری سنہ ۱۸۶۴میں پنجاب کے لفٹننٹ گورنر نے اپنی روانگی سے قبل ایک دربار منعقد کیا جس ‏میں مختلف ہندستانی راجا، امرا اور سرکاری عہدہ دار شریک تھے، لفٹننٹ گورنر نے اس موقع پر انگریزی مںن نہیں، اردو میں جلسے کو خطاب ‏کیا۔ ‏جب سرجانس لارنس وائسراے کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے ایک بڑا شاندار دربار آگرے میں منعقد کیا۔ جب وائسراے تخت پر ‏بیٹھنے کے لیے تشریف فرما ہوئے تو توپوں کی سلامی دی گئی اور سرولیم میور نے شاہی فرمان کاترجمہ پڑھا اور خود وائسراے نے حاضرین کے ‏روبرو ہندستانی میں تقریر کی۔ برٹش انڈیا ایسوسی ایشن مرادآباد میں لفٹننٹ گورنر نے اردو میں تقریر کی۔ نیز مدرسۂ مراد آباد کے افتتاح ‏کے موقع پر بھی صاحب موصوف نے اردو ہی میں جلسے سے خطاب کیا۔ مہاراجہ بنارس نے سنہ ۱۸۶۸ء میں چبرا زانسائیکلوپیڈیا کے اردو ‏ترجمے کے لیے دس ہزار روپئے منظور کیے بشرطیکہ حکومت بھی دس ہزار دے۔ ‏اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اردو کی مقبولیت کے کیا اسباب ہیں، دوسرے ہندی اور اردو کے اختلاف کا مسئلہ کیونکر ‏پیدا ہوا۔ میں پہلے دوسرے سوال کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بعض اصحاب کا جو یہ خیال ہے کہ سرسید احمد خاں نے نیشنل کانگریس ‏سے مخالفت کرکے ہندی اردو کا اختلاف پیدا کیا، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ فساد سب سے اول سنہ ۱۸۶۷ء میں بنارس سے اٹھا جہاں ‏‏’’بعض سربر آوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو، تمام سرکاری عدالتوں میں اردو زبان اور فارسی خط موقوف کرانے کی ‏کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے۔‘‘ ‏ہندوؤں کی اس قومی مجلس میں جو اس وقت بابو فتح نرائن سنگھ کے مکان پر بنارس میں قائم تھی، اس بات کی چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی اور رفتہ ‏رفتہ جابجا اس کے لیے کمیٹیاں، مجلسیں اور سبھائیں مختلف ناموں سے قائم ہو گئیں اور ایک صدر مجلس الہ آباد میں قائم کی گئی جس کے ‏ماتحت تمام مذکورۂ بالا مجلسیں اور سبھائیں تھیں۔ 7 اس کے بعد سے جھگڑا مختلف صورتوں میں طرح طرح سے اب تک چلا آ رہا ہے، جس ‏کی تاریخ اور تفصیل کا یہ موقع نہیں، میں یہاں صرف مختصر طور پر اس کے اصل وجوہ پر غور کرنا چاہتا ہوں۔ ‏پہلے زمانے میں آج کل کی طرح زبان سیاست کے دنگل میں نہیں اتری تھی۔ لوگ جس زبان میں زیادہ سہولت دیکھتے یا جس زبان میں ‏اشاعت کا زیادہ سامان پاتے اس میں لکھتے تھے اور اکثر اہل قلم اپنی زبان ترک کر دیتے اور غیر زبان میں لکھنا پسند کرتے تھے۔ ایک زمانے ‏میں لاطینی سارے یورپ پر چھائی ہوئی تھی اوربعض جرمن اور انگریز مصنفین لاطینی میں تالیف اور تصنیف کرتے تھے۔ اس میں کسی ‏حکومت کا دباؤ نہ تھا بلکہ اپنے شوق سے کرتے تھے اور انہیں کبھی اس کا گمان تک نہ ہوتا تھا کہ ایسا کرنا قومیت یا وطنیت کے حق میں غداری ‏ہے۔ فریڈرک اعظم اگرچہ کٹر جرمن تھا لیکن فرانسیسی بولنے اور لکھنے کو ترجیح دیتا تھا اور فرانسیسی لکھتے یا بولتے وقت اس کے خیال میں بھی ‏کبھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ وہ کسی ایسے فعل کا ارتکاب کر رہا ہے جو اس کے جذبۂ قومیت کے منافی ہے۔ یاہمارے ملک کی مثال لیجیے۔ ‏جب انگریزی تعلیم کارواج ہواتو ہمارے ہم وطن تعلیم یافتہ اکثر انگریزی میں بات چیت اور خط و کتابت کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں، ‏اگرچہ پہلا ساخبط اب نہیں رہا۔ اور جنہیں توفیق ہوتی ہے انگریزی میں تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔ انگریزی حکومت کا کوئی قانون ‏ایسانہیں کہ سوائے انگریزی کے کسی دیسی یا دوسری زبان میں تالیف نہ کی جائے۔ لوگ یہ سب کچھ اپنے شوق سے کرتے ہیں۔ بعینہٖ یہی ‏حال مغلوں کی حکومت میں تھا، جب کہ یہاں فارسی کا رواج ہوا۔ مغلوں کی حکومت میں ہندستان کی کا یابدل گئی۔ وہ اس ملک میں اپنے ‏ساتھ نئے آئین اور نئے اصول حکومت اور نیا مذہب لائے، انہوں نے نئی تنظیم اور نئی حکمت کو رواج دیااور نئے تمدن اور نئی تہذیب اور نئی ‏معاشرت کا دور شروع ہوا، نئے آداب مجلس، نئے رسم ورواج اور نئے ذوق نے رواج پایا۔ ان کے ساتھ طرح طرح کے کپڑے، قالین اور ‏فرش فروش، سامان آسائش، نئے آلات جنگ، نئے پھول اور پھل اور نئے قسم کے کھانے، نئی قسم کی صناعی، نئی قسم کی اصطلاحات اور الفاظ ‏یہاں آئے اور رائج ہوئے۔ ‏انہوں نے یہاں کے حالات میں ایک عجیب تغیر پیدا کر دیا اور سارے ماحول میں ایک نیا رنگ روپ نظر آنے لگا۔ اس جدید ذوق، اس جدید ‏تہذیب اور جدید خیالات کے ادا کرنے کے لیے جو اس ماحول میں ساری تھے، سوائے فارسی کے کوئی دوسری زبان نہ تھی۔ ایک تو اس لیے ‏کہ اس زبان میں شیرینی، لچک، وسعت تھی، الفاظ و اصطلاحات کا ذخیرہ موجود تھا اور بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے بیان کے سانچے تیار تھے۔ ‏دوسرے، اس میں لکھنے سے تحریر اہل بصیرت اوراصحاب ذوق کی نظر سے گزرتی تھی اور ہندستان ہی میں نہیں، اس سے باہر بھی پہنچتی تھی ‏اور تحسین حاصل کرتی تھی۔ تیسرے، رواج کی پابندی اور ماحول کااثر خودبخود اس طرف کھینچ لاتا تھا۔ چوتھے، اس میں کسی قدر مشیخت ‏کا بھی شائبہ تھا۔ اس میں ہندومسلمان سب برابر تھے، دونوں کی تحریریں پڑھیے، ذرہ برابر فرق نہیں پایا جاتا۔ یہ اس لیے نہیں تھاکہ مغلوں ‏نے فارسی سیکےنے کے لیے جبر کر رکھا تھا۔ ان کے عہد میں علم اور زبان کی عام آزادی تھی، بلکہ انہوں نے سنسکرت اور دوسری دیسی زبانوں کی ‏بڑی سرپرستی کی جس کی وجہ سے انہیں بہت فروغ ہوا۔ ‏چنانچہ ان کے عہد میں سنسکرت کے اعلیٰ مصنف اور سنسکرت اور ہندی کے بہت سے نامور شاعر ہوئے ہیں۔ فارسی کی طرف یہ عام رجحان ‏جدید حالات اور ماحول کا نتیجہ تھا۔ ہندستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں زبان کے معاملے میں اکثر رواداری کا برتاؤ تھا اور ‏لوگ غیرزبان بولنے اور غیرزبان لکھنے میں نہیں جھجکتے تھے۔ ‏لیکن یہ آزادی اور رواداری دنیا میں زیادہ مدت تک نہیں رہی۔ ایک زمانہ آیا جب کہ مذہب اور عقیدے کی طرح زبان بھی سیاسی لپیٹ ‏میں آ گئی۔ جرمنوں نے فرانسیسیوں کی نفرت کی وجہ سے فرانسیسی اور دوسری زبانوں کے لفظ اپنی زبان سے اسی طرح خارج کر دینے شروع ‏کر دیے جیسے آج وہ یہودیوں کو اپنے ملک سے جلا وطن کر رہے ہیں۔ اسی طرح شیواجی کے زمانے میں مرہٹی زبان سے عربی فارسی کے ‏الفاظ نکال دیےل کی کوشش کی گئی۔ آئرلینڈ میں محض انگریزی کی مخالفت میں آئرش زبان کے زندہ کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ ترکوں نے ‏اپنی زبان سے غیرزبانوں کے لفظ نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ ایران میں پہلے بھی ایک کوشش ہوئی لیکن ناکام رہی۔ اب وہ پھر ترکوں کی ‏طرح غیرزبانوں کے الفاظ نکال دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ زبان کے لیے اب لڑائیاں چھڑ جاتی ہیں، دوسری زبانوں کو مٹانے اور فنا کرنے ‏کے لیے جابرانہ احکام اور آئین نافذ کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ شہروں اور مقاموں تک کے نام بدل دیے جاتے ہیں۔ ‏زبان اور قومیت اب تک ایک دوسرے کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں اور جب اس کے ساتھ مذہب بھی آشریک ہوتا ہے تو یہ بادۂ تلخ دو آتشہ ‏ہو جاتا ہے۔ ‏یہی صورت ہندستان میں پیش آئی۔ سنہ ۵۷ء کے بعد کمپنی بہادر برخاست ہوئی۔ انگریزی راج آیا، حالات نے پلٹا کھایا، جدید قانون نافذ ‏ہوئے، جو آگے تھے پیچھے اور جو پیچھے تھے آگے ہو گئے۔ چند ہی سال بعد قومیت کا خیال جو سارے یورپ پر چھایا ہواتھا اڑتا ہوا یہاں بھی پہنچا۔ ‏ریل اور تار کی حیرت انگیز اختراعوں، کالجوں کی تعلیم، آزادی اور حب وطن کی تقریروں اور تحریروں، انگریزی انصاف پسندی کے اعتقاد نے ‏قومیت اور وطنیت کے جذبے کو اور اکسایا۔ خاص کر ہنود اس سے زیادہ متاثر ہوئے، وہ اس نئے دور کو اپنے حق میں آزادی کا دور سمجھے، اس ‏کے ساتھ ہی اپنی شاندار قومیت اور ماضی کے فخر نے بھی دلوں میں نیا جوش پیدا کیا جسے میکس مولر نے ابھارا اور جس سے بعد میں اینی ‏بزانٹ نے خوب کام لیا۔ لیکن سب سے زیادہ مستحکم طور پر یہ خیال سوامی دیانند سرسوتی نے دلوں میں جمایا۔ گروکل قائم ہوئے جس میں ‏سنسکرت پڑھنا اور سنسکرت بولنا لازم تھا، ویدک زمانے کی معاشرت کی نقل کی جانے لگی، ننگے پاؤں پھرنا، ایک بے سلی چادر اوڑھنا لپیٹنا، ‏جنگلوں میں رہنا، زیر سماسونا وغیرہ وغیرہ قومی شعار قرار پایا۔ ‏اسی قومیت کے جذبے، مقدس قدامت اور ماضی کے غرور، نام نہاد نئی آزادی اور نئی تعلیم نے اس میں نشے کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ وہ ‏طرح طرح سے اپنی نئی حیثیت اور انفرادیت جتانے لگے اور جس طرح ایک بےوقوف عورت نے اپنی خوب صورت انگوٹھی دکھانے کی ‏خاطر گھر کو آگ لگا دی تھی، انہوں نے بھی بنے بنائے گھر کو بگاڑنا شروع کیا۔ سب سے پہلے نزلہ اردو زبان پر گرا۔ اس کا سب سے بڑا قصور ‏یہ تھا کہ یہ اسلامی عہد کی پیداوار تھی۔ یہ سچ ہے کہ اس زمانے میں اس نے جنم لیا لیکن صرف مسلمان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ ‏درحقیقت اس زمانے کے ماحول اور اس تمدن اور تہذیب کی مخلوق تھی جو مسلمانوں کے آنے کے بعد ہندستان میں رونما ہوئی اور جس میں ‏ہندو مسلمان دونوں برابر کے شریک ہیں اور اردو کے بنانے میں تو (یہ میرا ذاتی خیال ہے) ہندو شریک غالب تھے۔ اور چونکہ یہ اس ماحول ‏میں پیدا ہوئی جس کی تعمیر ہندو مسلمان دونوں کے ہاتھوں سے ہوئی، اس لیے اس میں بہ نسبت کسی دوسری ہندی زبان کے عربی، فارسی ‏کے الفاظ زیادہ تھے اور وہ بھی سب ملاکر کتنے؟ بقول مولانا حالی’’جتنا آٹے میں نمک۔‘‘ ‏حیرت ہے کہ آریا اس ملک میں آئیں اور ہندی کہلائیں، مغل، ترک، عرب یہاں آبادہوں اور ہندستانی بن جائیں، اور بیسیوں قومیں یہاں ‏آئیں اور دیسی ہو جائیں لیکن بقول عورتوں کے ’’جنم جلے‘‘ لفظ ہی ایسے ہیں جو صد ہاسال رہنے سہنے کے بعد بھی غیر کے غیر ہی رہے اور ‏اپنے نہ ہونے پائے۔ اب انہیں محض اس شبہے پر کرید کرید کر اور اکھیڑ اکھیڑ کر نکالنا نادانی نہیں، دیوانہ پن ہے۔ قومی غرور میں اکثر ‏ایسا ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ مثلاً جرمنوں نے لفظوں پر مشق کرتے کرتے انسانوں پر بھی ہاتھ صاف کرنا ‏شروع کر دیا۔‏حالانکہ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ جب لفظ ہماری زبان میں آ گیا اور رس بس گیا تو وہ غیرزبان کا نہیں رہتا، ہمارا ہو جاتا ہے۔ اسے اگر ہم ‏نکال دیں تو سوائے ہماری زبان کے اس کا کہیں ٹھکانا نہیں رہتا۔ دوسری زبان میں مل جانے سے نہ اس کی وہ پہلی سی صورت اور چہرہ مہرہ ‏رہتاہے اور نہ سیرت و خصلت، وہ اگر اپنی اصلی زبان کی طرف جائےگا تو پہچان بھی نہ پڑےگا اور کوئی اسے وہاں گھسنے نہ دےگا۔ اس کے علاوہ ‏اصل زبان کا اس میں کوئی نقصان نہیں، نقصان ہے تو اس زبان کا جس میں یہ آکر بس گئے تھے اور جن کی وجہ سے اس زبان کی رونق، ‏وسعت اور قوت اظہار میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ‏زبان کی یہ گت اس ہندی اردو جھگڑے میں بنی۔ عربی، فارسی ہی کے نہیں بلکہ ہندی کے معمولی لفظ بھی جوعام طور پر بول چال میں رائج ‏ہیں، خارج اور ان کی جگہ سنسکرت کے اصل لفظ داخل کیے جا رہے ہیں۔ یہ زبان کا بنانا نہیں، بگاڑنا ہے۔ ‏بعض حضرات نے اس نزاع کا الزام سرسیدا حمد خاں کے سر تھوپا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ جب سر سید نے انڈین نیشنل کانگریس کی مخالفت کی ‏تو ہندی اردو کا جھگڑا پیدا ہوا۔ یہ بالکل غلط اوربے بنیاد ہے۔ جب یہ جھگڑا اٹھا ہے تو اس وقت کا نگریس کا وجود بھی نہ تھا۔ اس کے متعلق خود سر ‏سید کا بیان موجود ہے، ہم اسے کیوں نہ دیکھیں۔ وہ علی گڑھ کے تعلیمی سروے میں ایک جگہ لکھتے ہیں،‏’’تیس برس کے عرصے سے مجھ کو ملک کی ترقی اور اس کے باشندوں کی فلاح کا خواہ وہ ہندوہوں یامسلمان، خیال پیدا ہوا ہے اور ہمیشہ میری ‏یہ خواہش تھی کہ دونو ں مل کر دونوں کی فلاح میں کوشش کریں۔ مگر جب سے ہندو صاحبوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اردو زبان اور فارسی کو ‏جو مسلمانوں کی حکومت اور ان کی شاہنشاہی ہندستان کی باقی ماندہ نشانی ہے، مٹا دیا جائے، اس وقت سے مجھ کو یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمان ‏باہم متفق ہوکر ملک کی ترقی اور اس کے باشندوں کی فلاح کا کام نہیں کر سکتے۔ میں نہایت درستی اور اپنے تجربے اور یقین سے کہہ سکتا ہوں ‏کہ ہندو مسلمانوں میں جو نفاق شروع ہواہے، اس کی ابتدا اسی سے ہوئی۔‘‘ ‏جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے، اس کی ابتداسنہ ۶۷ء میں بنارس میں ہوئی اور ایسے برے وقت ہوئی کہ اب تک ختم ہونے کو نہیں آئی، ‏بلکہ دن بدن زور پکڑتی جاتی ہے۔ لیکن اس وقت بھی بعض منصف مزاج اورعاقبت اندیش ہندو اہل قلم نے اس نئی تحریک کی مخالفت کی، ‏چنانچہ سنہ ۱۸۶۹ء میں منشی حکم چند پروفیسر دہلی کالج نے ایک مدلل اور محققانہ مضمون اس کی مخالفت میں لکھا۔ پروفیسرموصوف زبانوں ‏کی حقیقت اور ارتقا وغیرہ پر بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں،‏’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خالص زبان اور میل والی (مخلوط) زبان میں کیاخاص فرق ہے اور اول الذکر کوثانی الذکر کے مقابلے میں ‏کیوں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی زبان بھی ایسی کہی جا سکتی ہے جس میں بدیسی الفاظ شامل نہ ہو گئے ‏ہوں؟ اگرکوئی ایسی زبان موجود ہو تو اس کو ترجیح کی کوئی وجہ نہیں۔ میل والی زبان میں اجنبی الفاظ کچھ عرصے کے استعمال کے بعد کھپ ‏جاتے ہیں اور مقامی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور اس میل والی زبان کوبھی ہم خالص زبان کہہ سکتے ہیں۔ دراصل یہ تمام امور اردو زبان کی ‏بحث سے خارج ہیں، اس واسطے کہ اردو ایک زندہ زبان ہے اور اس قدر زمانے سے ہندستان میں استعمال کی جا رہی ہے کہ اس کو ترک ‏کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ بحث بالکل بے نتیجہ ہے کہ آیا اردو ایک خالص زبان ہے یا اس میں دوسری زبانوں کابھی میل ہے۔ ‏اب ہندو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس جگہ ہندی کو رواج دیں، جس کااستعمال عرصے سے ترک کر دیا گیا ہے اور جس کی حیثیت اب ایسی ہی ہے ‏جیسی کہ سنسکرت کی۔ ‏ایک زمانہ تھا جب دلی والے جامہ پہنا کرتے تھے، لیکن اب لوگوں نے یہ لباس ترک کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ لباس پہن کر بازار میں ‏جائے تو لوگ کیا کہیں گے؟ اکثر لوگ بہروپ سے تعبیر کریں گے۔ زبانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اب اگر آپ ’’بدن‘‘ کی جگہ ’’شریر‘‘ اور شیر ‏کی جگہ’’سنگھ‘‘ استعمال کریں تو لوگ آپ کی بات سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ فارسی رسم خط کی جگہ جو ناگری رسم خط استعمال کرنے کی ‏کوشش کی جا رہی ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ دراصل اگر ایک دفعہ بدیسی الفاظ کسی زبان میں چل جائیں تو زبان خالص بنانے کے لیے ‏انہیں بے دخل نہیں کیا جا سکتا اور نہ رسم خط بدلا جا سکتا ہے۔ ‏فردوسی نے شاہنامے میں عربی الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن کیا دوسرے فارسی شعرا جیسے خاقانی، انوری، نظامی وغیرہ اس کا تتبع کر سکے؟ ‏برخلاف اس کے ان کے یہاں کثرت سے عربی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس اصول پر ہم اردو میں عربی، فارسی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ‏اور کیوں نہ کریں؟ شہروں میں ہر چھوٹا بڑا اردو بولتا ہے اور سرکاری دفاترمیں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اخبارات کی بڑی تعداد ‏شائع ہوتی ہے اور تعداد میں ہر روز مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اردو میں دوسری زبانوں کے مطالب بیان کرنے کی بدرجۂ اتم صلاحیت پائی جاتی ‏ہے۔‘‘ ‏اسی زمانے میں گارساں دتاسی لکھتے ہیں کہ ’’باوجود ان مباحث کے جن کی نسبت ہم نے ابھی ذکر کیا ہے، اردو ہندستان کی مشترکہ زبان کی ‏حیثیت سے مسلم ہے۔ ڈیوک آف اڈنبرانے اسی زبان میں اپنے دوران سفر میں تقریریں کیں اور اسی زبان میں ڈیوک موصوف کی ‏تعریف و توصیف میں قصیدے لکھے گئے۔ آج کل ساؤتھ کنزنگٹن میوزیم میں شہزادہ البرٹ کی جو نمایش ہو رہی ہے اس کے نیچے اردو زبان ‏میں کتبہ لکھا گیا ہے۔‘‘ ‏اسی مضمون میں دوسرے مقام پر لکھتے ہیں، ’’اگرچہ صوبۂ بنگال کی زبان بنگالی ہے لیکن اردو جیسا کہ میں پیشتر وضاحت بیان کر چکا ہوں ‏وہاں عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ راجا کالی کرشن پرشاد نے حال میں ملکۂ وکٹوریہ کی سال گرہ کے کے موقع پر سنسکرت میں جو ‏نظم لکھی تھی اس کا اردو میں ہی ترجمہ شائع کیا ہے، جس کی ایک نقل انہوں نے مجھے بھی بھیجی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ موصوف نے ‏اس کا بنگالی میں ترجمہ شایع نہیں کیا۔‘‘ ‏پھر لکھتے ہیں، ’’اگر کوئی ہندو اسلامی حکومت کو برا کہے اور انگریزی نظم و نسق کا مداح ہوتو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن عربی، فارسی ‏اور اردو جیسی زبانوں کے ساتھ تعصب برتنا کسی طرح بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ بابو شیو پرشاد جیسے عالم فاضل شخص سے مجھے اس کی ‏توقع نہ تھی، اس لیے ان کی تحریر دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ بابو صاحب خود اردو نہایت عمدہ لکھتے ہیں اور متعدد تصانیف اس زبان میں شایع ‏کر چکے ہیں۔ یہ خواہش کرنا کہ ہندستان میں سوائے سنسکرت، ہندی یاانگریزی کے اور کسی زبان کی تحصیل ہی نہ کی جائے، میرے خیال ‏میں تنگ نظری پر دلادت کرتا ہے۔ میں سید احمد خاں کی طرح اس بات میں زیادہ وسیع مشرب واقع ہوا ہوں۔‘‘ ‏اس زمانے میں اس نئی تحریک پر بڑی گرماگرم بحثیں ہوئیں اور دونوں فریق نے تائید وتردید میں خوب خوب دل کا بخار نکالا۔ اس زمانے ‏کا کوئی اخبار یارسالہ شاید ہی اس بحث سے خالی ہو۔ اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے یہ بحث دھیمی پڑ گئی اور لوگ سیاسی اور معاشرتی مسائل ‏کی طرف متوجہ ہو گئے۔ لیکن سرانٹونی میکڈانل کے عہد جبروت مہد میں اس دبی آگ کو پھونکیں مار مار کر سلگایا گیا۔ اور ابھی کچھ دنوں دم ‏نہ لینے پائے تھے کہ شدھی اور سنگھٹن نے وہ شعلے بھڑکائے جن کی آنچ اب تک کم نہیں ہوئی ہے اور جو آتا گیا ایک آدھ کپا تیل کا اور ‏لنڈھاتا گیا۔ انگریز بہت خوش اقبال ہے کہ ہر قرن اور ہر دور میں کوئی نہ کوئی بات ایسی نکل آتی ہے کہ ہم آپس میں کٹ مرتے ہیں اور وہ اس ‏کے مزے لیتا ہے۔ ‏رشید احمد صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ میں ہندی اردو کے قضیے سے بیزار ہوں۔ ان سے زیادہ میں بیزار ہوں۔ میں اب سے پہلے کبھی اس ‏بحث میں نہںم پڑا تھا، یہ میرے شعار کے خلاف تھا بلکہ جہاں کہیں میں نے ضرورت سمجھی ہندی کی حمایت ہی کی۔ جامعہ عثمانیہ میں ہندی ‏کے رواج دینے میں تھوڑی سی میری ناچیز کوشش کو بھی دخل تھا۔ ‏تین سال کا ذکر ہے کہ جب مدراس میں بعض پروفیسروں اور دیگر صاحب ذوق اصحاب نے اردو اکاڈیمی کی بنیاد ڈالی تو اس وقت احاطۂ مدراس ‏میں ہندی کی اشاعت اور پروپیگنڈے کا بھی ذکر آیا تو میں نے یہی کہا کہ ہمیں ہرگز اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، جس قدر ان میں ہندی ‏کا زیادہ رواج ہوگا اسی قدروہ ہم سے زیادہ قریب ہو جائیں گے، کیونکہ ہندی سے زیادہ ہندستان کی کوئی زبان اردو سے زیادہ قریب بلکہ ‏اقرب نہیں ہے (افسوس ہے کہ مجھے قربت کا لفظ استعمال کرنا پڑا جس سے دوئی کی بو آتی ہے، حالانکہ کچھ پہلے ہماری ایک ہی زبان تھی۔) ‏لیکن جب میں نے دیکھا کہ واقعات کا خون کیا جا رہا ہے اور دانستہ یانا دانستہ طرح طرح کی غلط بیانیاں پھیلائی جا رہی ہیں تو مجھ سے نہ رہا گیا اور ‏میں نے جھجکتے جھجےتا اپنی طبیعت کے خلاف اپنی کمزور آواز اور اس سے بھی کمزور اپنے قلم سے کسی قدر کام لیا۔ مجبوری میں آدمی کو کبھی ‏کبھی ایسا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ‏حال میں اس معاملے میں دو قسم کی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہندی دوہزار برس سے یہاں جاری ہے اور یہی ہندستانی زبان ہونی ‏چاہیے۔ ہندی کا لفظ عام ہے۔ اس کا اطلاق برج بھاشا، اودھی، بندیلی، بگھیلی، راجستارنی، بھوج پوری، میتھلی، چھتیس گڑھی وغیرہ وغیرہ پر اسی ‏طرح ہوتا ہے جس طرح اردو پر ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک زمانے میں ہندی کہلاتی تھی۔ مگر وہ ہندی جس کی خاطر یہ سارا طوفان برپا کیا گیا ہے ‏اس کی پیدائش کو بقول شخصے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کے منشیوں نے (خداان کی ارواح کو شرمائے) بیٹھے بٹھائے ‏بلاوجہ اور بغیر ضرورت یہ شوشہ چھوڑا۔ ‏للوجی لال نے جو اردو کے زبان داں اور اردو کتابوں کے مصنف بھی تھے، اس کی بنا ڈالی، وہ اس طرح کہ اردو کی بعض کتابیں لے کر انہوں ‏نے ا ن میں سے عربی، فارسی لفظ چن چن کر الگ نکال دیے اور ان کی جگہ سنسکرت اور ہندی کے نامانوس لفظ جما دیے، لیجیے ہندی بن گئی۔ ‏جدید ہندی کی تاریخ سے جو واقف ہیں، وہ سب اس پر متفق ہیں کہ اس کی ابتدا اسی طرح سے ہوئی۔ یہاں میں بخوف طوالت ان رایوں کو ‏نقل نہیں کرنا چاہتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ مشکل ہے اوربھدی ہے۔ فٹزایڈورڈہال جو ایک جید عالم گزرے ہیں اور ہندی زبان کے بڑے ‏حامیوں میں سے تھے، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہندی زبان جیسی کہ وہ آج کل مستعمل ہے، دراصل بالکل جدید زبان ہے اور ‏انیسویں صدی کے خاتمے پر جو ہندی رائج ہوگی وہ بہت مختلف ہو جائےگی۔‘‘ ان کی پیشین گوئی حرف بحرف صحیح نکلی۔ ‏دوسری غلط بیانی یہ کی گئی کہ اردو کو مسلمان بادشاہوں نے حکومت کے زور سے پھیلا یا اور اس وقت ہندوؤں نے بحالت مجبوری سیاسی ‏مصلحت سے قبول کر لیا۔ یہ بیان سرتاپا غلط اور بےبنیاد ہے۔ یہ بات اگر کوئی اور کہتا تو قابل التفات نہ ہوتی لیکن یہ الفاظ ایسے شخص کے قلم ‏سے نکلے ہیں جو اردو اور ہندی دونوں کا مسلم ادیب تھا اور اپنے اخلاق اور سیرت کے لحاظ سے معمولی آدمی نہ تھا۔ اس لیے اور بھی زیادہ تعجب ‏اور افسوس ہوتا ہے۔ اردو زبان کی تاریخ ایسی صاف اور کھلی چیز ہے کہ اس پر بحث کرنے یا اس بیان کی تردید کرنے کی مطلق ضرورت نہیں ‏معلوم ہوتی۔ مسلمان بادشاہوں کے دربار اور دفتر کی زبان ہمیشہ فارسی رہی، ان کو اتنی توفیق ہی نہ ہوئی کہ وہ غریب اردو کی طرف توجہ ‏فرماتے اور توجہ کی تو کس وقت؟ جب نہ سلطنت رہی، نہ حکومت اور ظاہر ہے ایسے وقت میں ان کا اثر ہی کیا ہو سکتا تھا۔ ‏اردو زبان جدید ہندی کی طرح کسی نے بنائی نہیں، وہ تو خود بخود بن گئی اور ان قدرتی حالات نے بنائی جن پر کسی کو قدرت نہ تھی۔ اس ‏میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے اور اگر ہندوؤں کی اس میں شرکت نہ ہوتی تو یہ وجود ہی میں نہیں آ سکتی تھی۔ مسلمان بادشاہوں پر ‏یوں تو بہت سے الزام عائد کیے گئے ہیں لیکن یہ بالکل نیا الزام ہے اور حال ہی میں گڑھا گیا ہے۔ ‏حضرات! اب میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اردو کی مقبولیت کے کیا اسباب ہوئے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی مقبولیت عام کی یہ ہوئی کہ اس کی ‏بنیاد عوام کی زبان پر رکھی گئی تھی جوبول چال کی زبان تھی۔ خود اردو کا لفظ ہی اس کی اصل اور ابتدا کا پتا دیتا ہے۔ اس وقت جتنی شائستہ اور ‏اعلیٰ درجے کی زبانیں ہیں جن کی دھاک ساری دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے، وہ ایک وقت میں عوام کی معمولی بولیاں تھیں اور حقارت کی نظر سے ‏دیکھی جاتی تھیں، یہاں تک کہ خود اہل زبان اس میں لکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ بعینہٖ یہی حال پہلے پہلے اردو کا بھی تھا۔ اس کے بولنے والے ‏بھی اس میں لکھتے ہوئے ہچکچاتے تھے اور جو کبھی کوئی لکھتا اور وہ بھی مذہبی ضرورت سے ہوتا تھا تو پہلے معذرت کرتا کہ چونکہ سب عربی ‏فارسی نہیں جانتے اس لیے ان کی خاطر سے اس زبان میں لکھ رہا ہوں۔ لیکن آخر یہی عوام کی بولی رفتہ رفتہ شائستہ اور ادبی زبان بن گئی اور ‏اب تک اس کا تعلق برابر عوام کی بولی سے رہا۔ ‏میں نے جو بھارتیہ ساہتیہ پرشد کے جلسے میں کہا تھا کہ اردو میں ہندی زبان کے الفاظ اور محاورے اور امثال جدید ہندی کی بہ نسبت کہیں ‏زیادہ ہیں تو یہ میں نے محض دھونس بٹھانے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ یہ امر واقعی ہے۔ ادبی زبان بننے پر بھی وہ عوام کی بولی سے جدانہیں ‏ہوئی، برخلاف جدید ہندی کے کہ وہ کتابی زبان ہے۔ انہیں جب کبھی الفاظ کی ضرورت پڑی تو انہوں نے سنسکرت کے ذخیرے کو ٹٹولا۔ ‏ہمارے پاس پہلے سے ہندی کے لفظ موجود تھے اور بعد میں بھی ہم نے ہندی سے نئے لفظ لینے میں بخل نہیں کیا۔ عوام کی زبان مثل قلب ‏کے ہے جس سے تمام اعضا کوخون پہنچتا رہتا ہے اور ان کی تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ جب تک زبان کوعوام کی بولی سے مدد ملتی رہتی ہے، وہ ‏عوام کی بولی کا ساتھ دیتی رہتی ہے، وہ زندہ اور چونچال رہتی ہے اور جس وقت سے اس کا تعلق عوام کی بولی سے منقطع ہو جاتا ہے تو اسی ‏وقت سے اس پر مردنی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یونانی، سنسکرت، لاطینی جو دنیا کی کامل اور بہترین زبانیں خیال کی جاتی ہیں، اسی ‏لیے مردہ ہو گئیں۔ ‏البتہ اردو پر ایک ایسا تاریک زمانہ آیا تھا کہ ہمارے شعرانے اکثر ہندی لفظوں کو متروک قرار دیا اور ان کی بجائے عربی فارسی کے لفظ بھرنے ‏شروع کیے اور یہی نہیں بلکہ بعض عربی فارسی الفاظ جو بہ تغیر ہیئت یا بہ تغیر تلفظ اردو میں داخل ہو گئے تھے، انہیں بھی غلط قرار دے ‏کراصل صورت میں پیش کیا اور اس کا نام ’’اصلاح زبان‘‘ رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ تکلف اور تصنع ہمارے ادب پر چھا گئے تےا، شاعری ‏ضلع جگت ہو گئی تھی، سخن وروں نے لفظوں کو کھیل بنا لیا تھا۔ شاعر کا مقصد کچھ کہنا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا کام قافیے کی رعایت سے لفظوں ‏کو جما دینا، ان میں صنائع وبدائع کا رنگ بھر دینا، قافیہ ردیف کھپا دینا اور محاوروں کا نباہ دینا رہ گیا تھا۔ اس میلان کی وجہ سے ہماری شاعری ‏رنگ برنگ لفظوں کا ایک ڈھانچا تھی، جس پر طرح طرح کی نقاشی کی ہوئی تھی لیکن اس میں جان نہ تھی۔ اور ہماری زبان ایک ایسی زبان ‏ہو گئی تھی کہ اسے بہت کم انسان بولتے تھے۔ غرض اس رنگ نے ہمارے ادب کو بے جان، بے لطف اور بے اثر بنا دیا تھا۔ ‏لیکن یہ دور تاریکی چند روزہ تھا، اس کے رفع کرنے میں سب سے بڑا کام سید احمد خاں نے کیا۔ اس کی تحریروں نے ہمارے ادب میں نئی جان ‏ڈال دی۔ اگرچہ اس کی زبان اور اس کا انداز بیان سادہ تھا لیکن اس میں فصاحت، اثر اور قوت تھی۔ اس نے علمی اور سنجیدہ مضامین لکھنے کا نیا ‏ڈول ڈالا اور موافق ومخالف دونوں نے اس کی پیروی کی اور اس کے رفقا یعنی نذیر احمد، شبلی، حالی اور ذکاءاللہ خاں وغیرہ نے اسے اور چمکایا ‏اور بڑھایا۔ سید احمد خاں کا اردو پر بڑااحسان ہے۔ اس نے صرف ہمارے ادب ہی کو نہیں بنایا اور سنوارا بلکہ ہر موقع پر جب ضرورت پڑی اس ‏کی حمایت کی اور اس پر آنچ نہ آنے دی۔ ‏سرسید کی وجہ سے اب اردو ادب کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا ہے جو ’’علی گڑھ اسکول‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس نئے ‏اسکول نے پھر عام بول چال کی طرف رجوع کی اورخاص کر نذیر احمد، حالی، آزاد، ذکاء اللہ نے ان الفاظ کو جو گھروں کے کونوں، کھدروں، ‏گلیوں، بازاروں اور کھیتوں میں کس مپرسی کی حالت میں پڑے تھے، چن چن کے نکالا، انہیں جھاڑا پونچھا، صاف کیا، جلا دی اور ان میں ‏سے بہت سے اچھوتوں کو مسند عزت پر لا بٹھایا۔ اس نئے خون نے جو ہمیشہ ہماری زبان کی رگ و پامیں پہنچتا رہا ہے، ہمارے ادب کی رونق اور ‏تازگی کو دو بالا کر دیا۔ ‏حضرات! اردو کی مقبولیت کی ایک اور وجہ بھی ہوئی جو قابل غور ہے۔ جس وقت یہ زبان وجود میں آئی تو ملک میں جتنی بولیاں مروج تھیں ‏وہ سب اپنے چھوٹے چھوٹے رقبوں اور حلقوں میں محدود تھیں، یہ زبان قدرت سے ایسے ماحول اور ایسے حالات اور اس قسم کے اثرات کے ‏تحت بنی تھی اوراس طرح سے اس کی ترکیب عمل میں آئی تھی کہ وہ خود بخود ملک کے اکثر خطوں میں پھیلتی گئی او ر لوگ اسے قبول کرتے ‏چلے گئے۔ ملک میں کوئی دوسری بولی یازبان ایسی نہ تھی جو اس کا مقابلہ کرتی اور جتنی بولیاں یازبانیں تھیں وہ اپنے حلقے سے باہر نہ بولی جاتی ‏تھیں اور نہ سمجھی جاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب اہل یورپ اور خصوصاً انگریز اس ملک میں آئے تو انہوں نے اسے ہندستانی یعنی ہندستان ‏کی زبان سے موسوم کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب فارسی کی بجائے اردو سرکاری دفاتر کی زبان قرار پائی تو کسی نے اختلاف نہ کیا۔ اختلاف ‏ہوتا تو کس بنا پر؟ کوئی دوسری زبان ایسی تھی ہی نہیں جو ہندستانی ہونے کا دعویٰ کرتی۔ ‏اردو زبان کی ایک اور خصوصیت بھی ہے جس پر بہت کم توجہ کی گئی ہے، وہ عورتوں کی زبان ہے۔ یوں تو دنیا میں اور بھی زبانیں ہیں جن ‏میں مردوں اور عورتوں کی بول چال میں کچھ کچھ فرق ہے لیکن اردو زبان میں یہ امتیاز بہت نمایاں اور گہراہے۔ اردو نے جس خطے میں جنم ‏لیا یا جہاں جہاں اس نے زیادہ رواج پایا وہاں پردے کی رسم رائج رہی ہے۔ اسی وجہ سے مردوں اور عورتوں کی معاشرت میں بہت کچھ فرق ‏پیدا ہو گیا۔ عورتوں کے الفاظ اور محاورے اور ان کا طرز بیان اور بول چال بھی بہت کچھ الگ ہو گئی۔ عورتوں کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے، وہ ‏انسانوں یا چیزوں میں بعض ایسی چھوٹی چھوٹی خوبیاں یا کمزوریاں دیکھ لیتی ہیں جن پر مردوں کی نظر نہیں پڑتی۔ ‏پردے میں رہنے کی وجہ سے ان کا سارا وقت امور خانہ داری، بال بچوں کی پرورش اور نگہداشت، شادی بیاہ، رسم ورواج کی پابندی اور ان ‏کے متعلق جتنے معاملات ہیں، اس میں صرف ہوتا ہے اور اس اقلیم میں ان کی عمل داری کامل ہوتی ہے۔ پھر ان کی زبان اور لہجے میں ‏قدرتی لطافت، نزاکت اور لوچ ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اپنے تعلقات کے لحاظ سے جو طرح طرح کے لفظ، محاورے اور مثلیں بنائی ہیں، ‏وہ بڑی لطیف، نازک، خوب صورت اور سبک ہیں۔ وہ گیت جو عورتوں نے بنائے ہیں بہت ہی پرلطف اور دلکش ہیں اور نفسیاتی اعتبار سے ‏خاص طور پر قابل قدر ہیں۔ ایسے الفاظ جن کا زبان سے نکالنا بدتمیزی سمجھا جاتاہے یا جن کے کہنے میں شرم و حجاب مانع ہوتاہے، عورتیں ‏ایسے الفاظ نہیں بولتیں بلکہ وہ اس مفہوم کو لطیف پیرایے میں تشبیہ اور استعارے کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کرجاتی ہیں۔ عربی ‏فارسی کے ثقیل الفاظ جن کا تلفظ آسانی سے ادانہیں ہوتا وہ انہیں بہت سڈول بنا لیتی ہیں، بعض اوقات ان کے معنی تک بدل جاتے ہیں اور وہ ‏خالص اردو کے لفظ ہو جاتے ہیں۔ ‏ہماری عورتوں کے الفاظ اور محاورے وغیرہ زیادہ ترہندی ہیں یاعربی فارسی کے لفظ ہیں تو انہیں ایسا تراشا ہے کہ ان میں اردو کی چمک دمک ‏پیدا ہو گئی ہے۔ اب جدید حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ جہاں ہماری اور بہت سی عزیز چیزیں مٹتی جاتی ہیں، یہ لطیف زبان بھی مٹتی جاتی ‏ہے۔ ریختی گو شعرا کا بڑا احسان ہے (اگرچہ ان میں سے بعض نے بہت کچھ فحش بھی بکا ہے) کہ انہوں نے اس زبان کو محفوظ کر دیا ہے۔ ‏اس زبان کے سینکڑوں ہزاروں الفاظ اور محاورے اور مثلیں ادبی زبان میں آ گئی ہیں اور ہمارے ادب کی زیب و زینت ہیں۔ اس زمانے میں ‏نذیر احمد، حالی، سید احمد دہلوی، راشد الخیری اور بعض دیگر اصحاب کی بدولت صنف نازک کی اس پاکیزہ زبان کا اکثر حصہ ہمارامشترکہ سرمایہ ‏ہو گیا ہے۔ اس کے اضافے سے ہماری زبان میں شگفتگی او رحسن ہی نہیں پیدا ہوا بلکہ اسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ ‏حضرات! آج کل ہر طرف سے یہ آواز سنائی دی جارہی ہے کہ ’’سادہ زبان لکھو، سہل لکھو۔‘‘ گویا سادہ اور سہل لکھنا معمولی بات ہے۔ ایک ‏ادیب کا قول ہے کہ ’’ایک اعلی درجے کے باکمال شخص اور ایک احمق میں صرف ایک ہی چیز مشترک ہے اور وہ ہے سادگی۔‘‘ ایسی سادہ ‏زبان لکھنا جس میں سلاست کے ساتھ لطف بیان اور اثر بھی ہو، صرف باکمال ادیب کا کام ہے۔ محض سیدھے سادے لفظ جمع کر دینا ‏اور سپاٹ، بے لطف، بے جان تحریر لکھنا نہ لکھنے سے بدتر ہے۔ ہر شخص کا طرز اور اسلوب بیان جدا ہوتا ہے، ادب وشعر میں کوئی کسی کو مجبور ‏نہیں کر سکتا کہ یوں نہیں یوں لکھو۔ حکم سے یا فرمائش سے کسی کو سادہ لکھنا نہیں آ سکتا۔ ‏زبان میں ہر قسم کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے اور ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ اپنے مضمون یا مقتضائے حال کے مطابق جو الفاظ موزوں ‏اور برمحل ہوں، استعمال کرے۔ جب ہم کسی بچے یا کسی گنوا ر سے باتیں کرتے ہیں یا بچوں کے لیے کوئی کتاب لکھتے ہیں تو خود بخود سادہ ‏زبان استعمال کرتے ہیں۔ سادہ یامشکل، فصیح یا سلیس لکھنا حالات اور ضرورت پر منحصر ہے اور زیادہ تر لکھنے والے پر اس کا انحصار ہے کہ وہ کیا ‏کہنا چاہتا ہے اور کس سے کہنا چاہتا ہے۔ ہماری زبان ہمیں عوام سے، ان پڑھ لوگوں سے، گنوار وں سے، سپاہیوں سے پہنچی ہے اور اس لیے ‏اس کا تعلق کبھی عوام سے منقطع نہیں ہونا چاہیے۔ بڑا آدمی وہ جس کی آواز سیکڑوں، ہزاروں تک پہنچتی ہے اور اس سے بھی بڑا وہ ہے جس کی ‏آواز لاکھوں کروڑوں تک پہنچتی ہے اور دنیا میں سب سے بڑا وہ ہے جس کی آواز تمام بنی نوع انسان تک پہنچ سکتی ہے۔ جس کا پیام جس قدر ‏سادہ الفاظ میں ہوگا اسی قدر زیادہ انسانوں تک پہنچےگا۔ ‏سید احمد خاں بڑاشخص ہوا ہے کیونکہ اس کی آواز لاکھوں آدمیوں تک پہنچتی تھی، اس لیے کہ اس کی تحریر سادہ، پراثر اور خلوص تھی۔ اگر ہم ‏میں اپنے بھائیوں کا درد ہے تو ہماری تقریر اور تحریر ضرور سادہ اور سہل ہوگی۔ لیکن بےچارے ادیب یامصنف ہی کی گردن دبا ناکہ ’’توسہل ‏لکھ‘‘ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں دوسرے پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے۔ آسان اور مشکل اضافی کلمے ہیں۔ ممکن ہے کہ جو چیز مجھے مشکل معلوم ہوتی ‏ہے وہ آپ کے لیے آسان ہو اور جسے میں آسان سمجھتا ہوں وہ آپ کے لیے مشکل ہو۔ انگریزی کی ایک بہت آسان کتاب لیجیے اور اس کا ترجمہ ‏اردو میں کیجیے۔ اردو میں آکر یہ آسان کتاب مشکل ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اصل کتاب جس ملک والوں کے لیے لکھی گئی تھی وہاں ‏تعلیم عام ہے، پڑھے لکھوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ الفاظ اور محاورے اور اصطلاحیں جو اس کتاب میں آئی ہیں، انہیں وہاں بچہ بچہ ‏جانتا ہے۔ ‏اب جو ہم نے اپنی زبان میں ترجمہ کیا تو پڑھے لکھے بھی اسے نہیں سمجھتے، پڑھے لکھے تو رہے ایک طرف بعض وقت خود مترجم نہیں سمجھتا کہ ‏میں نے کیا لکھا ہے۔ اسی لیے جہاں سادہ لکھنے کی فرمائش اورچیخ وپکار ہے وہاں اپنے ملک کی جہالت رفع کرنے اورعلم کی روشنی پھیلانے کی ‏بھی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر کچھ ناخواندہ طبقہ ذرا اوپر اٹھےگا اور کچھ ہمارے ادیب اور مصنف ذرا نیچے جھکیں گے، اس طرح دونوں کے ‏درمیان تفاوت کم رہ جائےگا اور وہ ایک دوسرے کی بات آسانی سے سمجھنے لگیں گے۔ ‏یہ کچھ ایسی مشکل نہیں ہے۔ لیکن ہماری مشکلات اور بھی ہیں اور ان کی طرف اب خاص طور پر توجہ کی جا رہی ہے۔ مگر اب تک ان کے حل ‏کرنے کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ ان میں سے ایک علمی اصطلاحات کا ترجمہ ہے۔ میں اس کے متعلق بہت کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن یہاں نہ اتنا ‏وقت ہے اور نہ مجھے اتنی فرصت ملی کہ تفصیل سے کچھ لکھتا۔ لیکن اتنا ضرور عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے جو اصطلاحات کو ہوا بنا رکھا ہے ‏یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ قدیم زمانے میں پروہتوں اور مذہبی پیشواؤں نے مذہب کو اور اہل علم نے علم کو پراسرار بنا رکھا تھا۔ وہ عام آدمی کو ‏اس کا اہل نہیں سمجھتے تھے اور اسی لیے علم ایک خاص طبقے کے قبضے میں رہتا تھا۔ عام کرنے سے ان کے اقتدار میں فرق آتا تھا۔ اسے قائم رکھنے ‏کے لیے انہوں نے ایسی اصطلاحات گڑھ لی تھیں جنہیں دیکھتے ہی آدمی مرعوب ہو جائے۔ یہ خیال تو رفتہ رفتہ جاتا رہا لیکن اس کا اثر باقی رہ گیا۔ ‏آپ نے انگریزی میں لاطینی اور یونانی زبانوں سے مشتق اصطلاحیں دیکھی ہوں گی جو کس قدر بے ڈھنگی، بے ڈول اور بھیانک ہیں، ہمیں اس ‏کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو ہمیں اصطلاحات کے لیے ایسے الفاظ رکھنے چاہییں کہ ایک معمولی پڑھا لکھا شخص بھی اس کے ‏کسی جزو سے واقف ہو اور لفظ اور مفہوم میں جو تعلق ہو اسے تھوڑا بہت پالے۔ اس سے اسے معنی کے سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی اور ‏اصطلاح کے یاد رکھنے میں بھی۔ اسی طرح رسم الخط اور املا کی اصلاح اور سہل بنانے کا مسئلہ ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ایسے ٹائپ کے بنانے ‏کا مسئلہ ہے جو ہماری زبانوں کے لیے موزوں ہو۔ ‏یہ سب مسائل ہماری توجہ کے قابل ہیں۔ ہمیں ایک طرف اپنے ادب کو مستحکم اور علوم وفنون سے مالامال کرنا ہے اور دوسری طرف اپنی ‏زبان کی اشاعت منظور ہے۔ اس لیے ان تمام وسائل اور ذرائع پر غور کرنا ہمارا فرض ہے جو ہماری زبان کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ‏ضروری ہیں۔ ان تمام امور پر بحث کرنے کا یہ موقع نہیں لیکن انجمن ترقیٔ اردو ان سب پر غور کر رہی ہے اور انشاءاللہ جلد جلد ان کو عمل ‏میں لانے کی کوشش کرےگی۔ ‏اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ ہماری زبان ہی ایسی زبان ہے جو سارے ہندستان کی عام اور مشترک زبان ہو سکتی ہے، اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ اس ‏میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت ہے، اگر ہم سچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زبان ہماری تہذیب اور ہماری زندگی کا جز ہے تو ‏صاحبو! اگر ہمیں اس کے لیے زیادہ نہیں تھوڑا ساتردد، تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنی پڑے تو اس سے گریز نہ کریں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے ‏توکم سے کم اتنا تو ہو کہ جب کوئی دوسرا اس کے لیے سرگردانی کے واسطے تیار ہو تو اس کا ہاتھ بٹانے میں دریغ نہ کیا جائے۔

‏حاشیے‏

(۱۔ ۲) ‏British India Monitor Preface, X civ.‎‏

‎‏(۳) خطبات گارساں دتاسی صفحہ 365

‏‏(۴) خطبات گارساں صفحہ 458سنہ 1865ء‏

‏(۵) خطبات گارساں دتاسی صفحہ 324‏‏

(۶) خطبات گارساں دتاسی صفحہ 371

(۷) حیات جاوید صفحہ 140


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.