خنجر بکف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
Appearance
خنجر بکف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے
جس سے اسے لگاؤں روکھا ہی ہو ملے ہے
سینے میں جل کر از بس دل خاک ہو گیا ہے
کیا جانوں لذت درد اس کی جراحتوں کی
یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے
صحبت سے اس جہاں کی کوئی خلاص ہوگا
اس فاحشہ پہ سب کو امساک ہو گیا ہے
دیوار کہنہ ہے یہ مت بیٹھ اس کے سائے
اٹھ چل کہ آسماں تو کا واک ہو گیا ہے
شرم و حیا کہاں کی ہر بات پر ہے شمشیر
اب تو بہت وہ ہم سے بے باک ہو گیا ہے
ہر حرف بسکہ رویا ہے حال پر ہمارے
قاصد کے ہاتھ میں خط نمناک ہو گیا ہے
زیر فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میرؔ
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |