خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
Appearance
خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوئے جہان ہوتے ہیں
گوشۂ دیوار تک تو جا نالے
اس میں گل کو بھی کان ہوتے ہیں
کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن
گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں
دشت کے پھوٹے مقبروں پہ نہ جا
روضے سب گلستاں ہوتے ہیں
حرف تلخ ان کے کیا کہوں میں غرض
خوبرو بد زبان ہوتے ہیں
غمزۂ چشم خوش قدان زمیں
فتنۂ آسمان ہوتے ہیں
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میرؔ و مرزا رفیعؔ و خواجہ میرؔ
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |