خوں بہانے کے ہیں ہزار طریق
Appearance
خوں بہانے کے ہیں ہزار طریق
رنگ لانے کے ہیں ہزار طریق
کعبہ و دیر پر نہیں موقوف
اس یگانے کے ہیں ہزار طریق
کوئی مذہب نہیں زمانے کا
اس پرانے کے ہیں ہزار طریق
عذر مستی و مے پرستی کیا
بھول جانے کے ہیں ہزار طریق
دل ستانی کے سیکڑوں انداز
دل ستانے کے ہیں ہزار طریق
یاد میں خواب میں تصور میں
آ کہ آنے کے ہیں ہزار طریق
دل لگی دل دہی دل آرامی
دل لبھانے کے ہیں ہزار طریق
دل مشبک ہوا تو فرمایا
آنے جانے کے ہیں ہزار طریق
کس طریقے سے ہو نباہ بیاںؔ
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |