Jump to content

خوں کے پیاسے ہیں وہاں ابروئے خم دار جدا

From Wikisource
خوں کے پیاسے ہیں وہاں ابروئے خم دار جدا
by شاہ اکبر داناپوری
331538خوں کے پیاسے ہیں وہاں ابروئے خم دار جداشاہ اکبر داناپوری

خوں کے پیاسے ہیں وہاں ابروئے خم دار جدا
تیز کرتی ہے چھری یاں مژۂ یار جدا

اے صنم بہر خدا تو نہ ہو زنہار جدا
موت ہی ہے جو مسیحا سے ہو بیمار جدا

رخ روشن سے ہوں کیا ابروئے خم دار جدا
صبح محشر سے نہ ہوگی یہ شب تار جدا

تو کہے تو ابھی سر کاٹ کے رکھ دیتے ہیں
ہم کسی حال میں تجھ سے نہیں اے یار جدا

باغ عالم میں کسے عشق ان آنکھوں کا نہیں
میں ہوں بیمار جدا نرگس بیمار جدا

اس سے کچھ خوف نہیں اس سے ہے اندیشۂ مرگ
رنجش خلق جدا رنجش دل دار جدا

خاک بھی اس سے نہ ہو اس سے ہو محشر برپا
کبک کی چال جدا یار کی رفتار جدا

ابھی ہو جائے زمیں ہمسر چرخ انجم
کفش سے تیرے ستارے ہوں جو دو چار جدا

ایک دن وصل ہی ہو جائے گا عاشق کا ترے
مجھ سے ہوتا ہے جو اے یار تو ہر بار جدا

ایک گل باغ جہاں میں نہیں تجھ سا بخدا
سب حسینوں سے روش ہے تری اے یار جدا

کون سی شکل ہے اب زیست کی میری اکبرؔ
صدمۂ ہجر جدا طعنۂ اغیار جدا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.