خوں کے پیاسے ہیں وہاں ابروئے خم دار جدا
خوں کے پیاسے ہیں وہاں ابروئے خم دار جدا
تیز کرتی ہے چھری یاں مژۂ یار جدا
اے صنم بہر خدا تو نہ ہو زنہار جدا
موت ہی ہے جو مسیحا سے ہو بیمار جدا
رخ روشن سے ہوں کیا ابروئے خم دار جدا
صبح محشر سے نہ ہوگی یہ شب تار جدا
تو کہے تو ابھی سر کاٹ کے رکھ دیتے ہیں
ہم کسی حال میں تجھ سے نہیں اے یار جدا
باغ عالم میں کسے عشق ان آنکھوں کا نہیں
میں ہوں بیمار جدا نرگس بیمار جدا
اس سے کچھ خوف نہیں اس سے ہے اندیشۂ مرگ
رنجش خلق جدا رنجش دل دار جدا
خاک بھی اس سے نہ ہو اس سے ہو محشر برپا
کبک کی چال جدا یار کی رفتار جدا
ابھی ہو جائے زمیں ہمسر چرخ انجم
کفش سے تیرے ستارے ہوں جو دو چار جدا
ایک دن وصل ہی ہو جائے گا عاشق کا ترے
مجھ سے ہوتا ہے جو اے یار تو ہر بار جدا
ایک گل باغ جہاں میں نہیں تجھ سا بخدا
سب حسینوں سے روش ہے تری اے یار جدا
کون سی شکل ہے اب زیست کی میری اکبرؔ
صدمۂ ہجر جدا طعنۂ اغیار جدا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |