دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا
Appearance
دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا
پہنچے کب اس کو ہاتھ ہمارے غبار کا
موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا
خون جگر شراب و ترشح ہے چشم تر
ساغر مرا گرو نہیں ابر بہار کا
چشم کرم سے عاشق وحشی اسیر ہو
الفت ہے دام آہوئے دل کے شکار کا
سونپا تھا کیا جنوں نے گریبان کو مرے
لیتا ہے اب حساب جو یہ تار تار کا
سوداؔ شراب عشق نہ کہتے تھے ہم، نہ پی
پایا مزا نہ تو نے اب اس کے خمار کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |