Jump to content

دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیں

From Wikisource
دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیں
by شیخ قلندر بخش جرات
296743دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیںشیخ قلندر بخش جرات

دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیں
شعر پڑھانے ہم سے اور مضمون گٹھا ہے اور کہیں

آنکھیں ذرا ملانا ادھر کو کیوں جی یہ کیا باتیں ہیں
بات کی ہم سے اٹھانی لذت جی کا مزا ہے اور کہیں

حق تو ہے کچھ حال دل اپنا کہتے ہیں جب تم سے ہم
کان لگائے سنتے ہو پر دھیان لگا ہے اور کہیں

دیکھیو یہ عیاری کوئی کیا کیا ہم کو لپیٹے میں
وہ بت پر فن لیتا ہے دل جس نے دیا ہے اور کہیں

ٹوک کے اس سے بات کروں تو یوں وہ کہے ہے چتون میں
مجھ کو نہ چھیڑو دھیان اجی اس وقت مرا ہے اور کہیں

ہم سے زبانی ملنے کو تم کہتے ہو ہم جانتے ہیں
دل سے پر آنے جانے کا اقرار کیا ہے اور کہیں

دیکھ کے ہم کو جو کہتے ہو تم آؤ بیٹھو بات کرو
باتیں یہ سب ظاہر کی ہیں انس ہوا ہے اور کہیں

اب تو کچھ ہمدرد سے میرے آتے ہو تم مجھ کو نظر
تم سا شاید کوئی پیارے تم کو ملا ہے اور کہیں

بیٹھے ہو مجھ پاس ولیکن گھبرانے سے نکلے ہے
آنکھ بچا کر اٹھ جانے کا دھیان بندھا ہے اور کہیں

ظاہر میں تم کہتے ہو مجھ کو بیٹھو ابھی تو جاؤ نہ گھر
مجھ کو تو معلوم ہے جو پیغام گیا ہے اور کہیں

باتیں کر کے لگاوٹ کی یہ کافر ہوں گر جھوٹ کہوں
دل کو مرے تم لیتے ہو جی نام خدا ہے اور کہیں

حیف ہے اس کے ہونے پر جو یاد کرو تم غیر کو جان
جرأتؔ میں جو نہیں سو ایسی بات وہ کیا ہے اور کہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.