درد اپنا میں اسی طور جتا رہتا ہوں
Appearance
درد اپنا میں اسی طور جتا رہتا ہوں
حسب حال اس کو کئی شعر سنا رہتا ہوں
اک ہی جا رہنے کا ہے گھر پہ اسی گھر میں آہ
دل یہ رہتا ہے جدا اور میں جدا رہتا ہوں
بات میں کس کی سنوں آہ کہ اے مرغ چمن
شور میں اپنے ہی نالوں کے سدا رہتا ہوں
بارے اتنا ہے اثر درد کے افسانے میں
ایک دو شخص کو ہر روز رلا رہتا ہوں
بزم خوباں میں یہ سر گو کٹے رونے پہ مرا
شمع ساں اشک پر آنکھوں سے بہا رہتا ہوں
آہ و نالہ میں اگر کچھ بھی اثر ہے میرے
تو میں اس شوخ کو اک روز بلا رہتا ہوں
حسن اور عشق کا کیا ذکر کروں مت پوچھو
ان دنوں زیست سے بھی اپنی خفا رہتا ہوں
دل لگا جب سے مرا آہ تبھی سے جرأتؔ
کتنی ہی آفتیں ہر روز اٹھا رہتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |