درد دل
درد ہے دل کے لئے اور دل انساں کے لئے
تازگی برگ و ثمر کی چمنستاں کے لئے
ساز آہنگ جنوں تار رگ جاں کے لئے
بے خودی شوق کی بے سر و ساماں کے لئے
کیا کہوں کون ہوا سر میں بھری رہتی ہے
بے پیے آٹھ پہر بے خبری رہتی ہے
نہ ہوں شاعر نہ ولی ہوں نہ ہوں اعجاز بیاں
بزم قدرت میں ہوں تصویر کی صورت حیراں
دل میں اک رنگ ہے لفظوں سے جو ہوتا ہے عیاں
لے کی محتاج نہیں ہے مری فریاد و فغاں
شوق شہرت ہوس گرمیٔ بازار نہیں
دل وہ یوسف ہے جسے فکر خریدار نہیں
اور ہوں گے جنہیں رہتا ہے مقدر سے گلا
اور ہوں گے جنہیں ملتا نہیں محنت کا صلا
میں نے جو غیب کی سرکار سے مانگا وہ ملا
جو عقیدہ تھا مرے دل کا ہلائے نہ ہلا
کیوں ڈراتے ہیں عبث گبرو مسلماں مجھ کو
کیا مٹائے گی بھلا گردش دوراں مجھ کو
کیا زمانہ پہ کھلے بے خبری کا مری راز
طائر فکر میں پیدا تو ہو اتنی پرواز
کیوں طبیعت کو نہ ہو بے خودیٔ شوق پہ ناز
حضرت ابر کے قدموں پہ ہے یہ فرق نیاز
فخر ہے مجھ کو اسی در سے شرف پانے کا
میں شرابی ہوں اسی رند کے میخانے کا
دل مرا دولت دنیا کا طلب گار نہیں
بخدا خاک نشینی سے مجھے عار نہیں
مست ہوں حب وطن سے کوئی مے خوار نہیں
مجھ کو مغرب کی نمائش سے سروکار نہیں
اپنے ہی دل کا پیالہ پیے مدہوش ہوں میں
جھوٹی پیتا نہیں مغرب کی وہ مے نوش ہوں میں
قوم کے درد سے ہوں سوز وفا کی تصویر
میری رگ رگ سے ہے پیدا تپ غم کی تاثیر
ہے مگر آج نظر میں وہ بہار دل گیر
کر دیا دل کو فرشتوں نے طرب کے تسخیر
یہ نسیم سحری آج خبر لائی ہے
سال گزرا مرے گلشن میں بہار آئی ہے
قوم میں آٹھ برس سے ہے یہ گلشن شاداب
چہرۂ گل پہ یہاں پاس ادب کی ہے نقاب
میرے آئینۂ دل میں ہے فقط اس کا جواب
اس کے کانٹوں پہ کیا میں نے نثار اپنا شباب
کام شبنم کا لیا دیدۂ تر سے اپنے
میں نے سینچا ہے اسے خون جگر سے اپنے
ہر برس رنگ پہ آتا ہی گیا یہ گلزار
پھول تہذیب کے کھلتے گئے مٹتے گئے خار
پتی پتی سے ہوا رنگ وفا کا اظہار
نوجوانان چمن بن گئے تصویر بہار
رنگ گل دیکھ کے دل قوم کا دیوانہ ہوا
جو تھا بد خواہ چمن سبزۂ بیگانہ ہوا
بوئے نخوت سے نہیں یاں کے گلوں کو سروکار
ہے بزرگوں کا ادب ان کی جوانی کا سنگار
علم و ایماں کی طراوت کا دلوں میں ہے گزار
دھو گئے چشمۂ اخلاق سے سینوں کے غبار
رنگ دکھلاتی ہے یوں دل کی صفا یاروں میں
روشنی صبح کی جس طرح ہو گلزاروں میں
کس کو معلوم تھی اس گلشن اخلاق کی راہ
میں نے پھولوں کو کیا رنگ وفا سے آگاہ
اب تو اس باغ پہ ہے سب کی محبت کی نگاہ
جو کہ پودے تھے شجر ہو گئے ماشاء اللہ
کیا کہوں رنگ جوانی میں جو اس راگ کے تھے
باغباں ہو گئے گلچیں جو میرے باغ کے تھے
گو کہ باقی نہیں کیفیت طوفان شباب
پھنس کے جنجال میں دنیا کے یہ قصہ ہوا خواب
مست رہتا ہے مگر اب بھی دل خانہ خراب
شام کو بیٹھ کے محفل میں لنڈھاتا ہوں شراب
نشہ علم کی امید پہ جینے والے
سمٹ آتے ہیں سر شام سے پینے والے
اور ہی رنگ پہ ہے آج بہار گلشن
سیر کے واسطے آئے ہیں عزیزان وطن
فرش آنکھیں کئے بیٹھے ہیں جوانان چمن
دل میں طوفان طرب لب پہ محبت کے سخن
کون ہے آج جو اس بزم میں مسرور نہیں
روح سرشار بھی کھنچ آئے تو کچھ دور نہیں
مگر افسوس یہ دنیا ہے مقام عبرت
رنج کی یاد دلاتا ہے خیال راحت
آج یاد آتی ہے ان پھولوں کی مجھ کو صورت
کھلتے ہی کر گئے جو میرے چمن سے رحلت
چشم بد دور گلوں کی یہ بھری ڈالی ہے
چند پھولوں کی مگر اس میں جگہ خالی ہے
یہ وہ گل تھے جنہیں ارباب نظر نے رویا
بھائی نے بہنوں نے مادر نے پدر نے رویا
خاک رونا تھا جو اس دیدۂ تر نے رویا
مدتوں ان کو مرے قلب و جگر نے رویا
دل کے کچھ داغ محبت ہیں نشانی ان کی
بچپنا دیکھ کے دیکھی نہ جوانی ان کی
خیر دنیا میں کبھی سوز ہے اور کبھی ہے ساز
نونہالان چمن کی رہے اب عمر دراز
بھائی سے بڑھ کے مجھے ہیں یہ میرے مایۂ ناز
میرے مونس ہیں یہی اور یہی میرے ہم راز
مر کے بھی روح مری دل کی طرح شاد رہے
میں رہوں یا نہ رہوں یہ چمن آباد رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |