درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے
درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے
صبح ہونے کی نہیں یاس اس افسانے سے
کوئی اتنا بھی نہیں آپ سے غیبت ہی کرے
کانٹے پڑتے ہیں زباں میں مرے افسانے سے
دست گستاخ سے ممکن نہیں آرائش حسن
گیسوئے یار سنورنے کے نہیں شانے سے
دامن باد بہاری ہے گریباں پہ نثار
آتی ہے بوئے محبت ترے دیوانے سے
پھر وہی کوچہ وہی در وہی سودا وہی سر
کھینچ لایا ہے یہ دل پھر مجھے ویرانے سے
آج ہی چھوٹے جو کل چھٹتا ہو یہ دیر خراب
وحشت آباد جہاں کم نہیں ویرانے سے
ہوس عالم بالا نے کیا ہے دل تنگ
روح گھبرا گئی اب جسم کے کاشانے سے
اپنی پرچھائیں سے دیوانوں کو نفرت ہی رہی
جیتے جی نکلے نہ زنداں کے سیہ خانے سے
حسن معنی کے جو شیدا ہیں ادھر کیا دیکھیں
صورت آباد جہاں کم نہیں ویرانے سے
جان من معرفت اس حسن کی آسان نہیں
داد کیا چاہتے ہو تم کسی بیگانے سے
کیفیت سے کبھی خالی نہیں دل مستوں کا
ہو بہ ہو ملتا ہے ساقی ترے پیمانے سے
ساقیا دل کی ہوس مٹ نہ سکی پیری میں
پیاس بجھتی نہیں ٹوٹے ہوئے پیمانے سے
آگ میں کود پڑا دل کی لگی وہ شے ہے
آتش شوق کو پوچھے کوئی پروانے سے
اور پردے کی ملاقات کرے گی اندھیر
شمع کیوں چھپتی ہے فانوس میں پروانے سے
ناصحا ہے کوئی ایسا کہ سنبھالے مجھ کو
لڑ گئی آنکھ مری پھر کسی مستانے سے
دور سے دیکھنے کے یاسؔ گنہ گار ہیں بس
آشنا تک نہ ہوئے لب کبھی پیمانے سے
جام لبریز ہوا ہے کسی مہجور کا آج
بوئے خوں آتی ہے ساقی ترے پیمانے سے
پہلے سرگوشیاں تھیں چھا گیا اب سناٹا
بزم میں صبح ہوئی یاسؔ کے افسانے سے
مسند آتش مغفور مبارک ہو یاسؔ
آئے سناٹے میں غالبؔ ترے افسانے سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |