Jump to content

درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے

From Wikisource
درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے
by یاس یگانہ چنگیزی
318448درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سےیاس یگانہ چنگیزی

درد دل روئیں کس امید پہ بیگانے سے
صبح ہونے کی نہیں یاس اس افسانے سے

کوئی اتنا بھی نہیں آپ سے غیبت ہی کرے
کانٹے پڑتے ہیں زباں میں مرے افسانے سے

دست گستاخ سے ممکن نہیں آرائش حسن
گیسوئے یار سنورنے کے نہیں شانے سے

دامن باد بہاری ہے گریباں پہ نثار
آتی ہے بوئے محبت ترے دیوانے سے

پھر وہی کوچہ وہی در وہی سودا وہی سر
کھینچ لایا ہے یہ دل پھر مجھے ویرانے سے

آج ہی چھوٹے جو کل چھٹتا ہو یہ دیر خراب
وحشت آباد جہاں کم نہیں ویرانے سے

ہوس عالم بالا نے کیا ہے دل تنگ
روح گھبرا گئی اب جسم کے کاشانے سے

اپنی پرچھائیں سے دیوانوں کو نفرت ہی رہی
جیتے جی نکلے نہ زنداں کے سیہ خانے سے

حسن معنی کے جو شیدا ہیں ادھر کیا دیکھیں
صورت آباد جہاں کم نہیں ویرانے سے

جان من معرفت اس حسن کی آسان نہیں
داد کیا چاہتے ہو تم کسی بیگانے سے

کیفیت سے کبھی خالی نہیں دل مستوں کا
ہو بہ ہو ملتا ہے ساقی ترے پیمانے سے

ساقیا دل کی ہوس مٹ نہ سکی پیری میں
پیاس بجھتی نہیں ٹوٹے ہوئے پیمانے سے

آگ میں کود پڑا دل کی لگی وہ شے ہے
آتش شوق کو پوچھے کوئی پروانے سے

اور پردے کی ملاقات کرے گی اندھیر
شمع کیوں چھپتی ہے فانوس میں پروانے سے

ناصحا ہے کوئی ایسا کہ سنبھالے مجھ کو
لڑ گئی آنکھ مری پھر کسی مستانے سے

دور سے دیکھنے کے یاسؔ گنہ گار ہیں بس
آشنا تک نہ ہوئے لب کبھی پیمانے سے

جام لبریز ہوا ہے کسی مہجور کا آج
بوئے خوں آتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

پہلے سرگوشیاں تھیں چھا گیا اب سناٹا
بزم میں صبح ہوئی یاسؔ کے افسانے سے

مسند آتش مغفور مبارک ہو یاسؔ
آئے سناٹے میں غالبؔ ترے افسانے سے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.