دریا طوفان بہہ رہا ہے
Appearance
دریا طوفان بہہ رہا ہے
آنکھوں کا عجیب ماجرا ہے
زاہد کو غرور زہد کا ہے
رندوں کو خدا کا آسرا ہے
ذکر ان کے دہن کا جا بجا ہے
ہے کچھ بھی نہیں یہ بات کیا ہے
دیوار کا ان کی سایہ ٹھہرا
اک یہ بھی سعادت ہما ہے
ہم چشمی اور ان کی انکھڑیوں سے
نرگس تجھے کچھ بھی سوجھتا ہے
پاؤں کے ہمارے گو کھروسی
اک اک کانٹا کھٹک گیا ہے
الفت ہے کھلی ہوئی بتوں سے
اللہ سے مہرؔ کیا چھپا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |