Jump to content

در جشن ہولی و کتخدائی

From Wikisource
در جشن ہولی و کتخدائی
by میر تقی میر
314922در جشن ہولی و کتخدائیمیر تقی میر

آؤ ساقی شراب نوش کریں
شور سا ہے جہاں میں گوش کریں
آؤ ساقی بہار پھر آئی
ہولی میں کتنی شادیاں لائی
شادیاں بے شگوں سراسر ہیں
کوچے سو شہر کے برابر ہیں
دست دستور ہے جو زرافشاں
پھر جہان کہن ہوا ہے جواں
دونوں رستے عمارت خوش ہے
تازہ کاری شہر دلکش ہے
اور بازاری رنگ لائے ہیں
سارے رنگیں ستوں لگائے ہیں
جس طرف دیکھو معرکہ سا ہے
شہر ہے یا کوئی تماشا ہے
چشم بد دور ایسی بستی سے
یہی مقصد ہے ملک ہستی سے
لکھنؤ دلی سے بھی بہتر ہے
کہ کسو دل کی لاگ ایدھر ہے
آئیں بستہ ہوا ہے سارا شہر
کاغذیں گل سے گلستاں ہے دہر
ایسے گل پھول ہیں جو صرف کار
راہ رستے ہوئے ہیں باغ و بہار
بستہ آئیں دکانیں ہیں یکسر
جن میں سستی متاع لعل و گہر
میوۂ نورس و رسیدہ بہت
گل خوش رنگ و بوے چیدہ بہت
شب شادی کو لڑکے ہوں جو سوار
لیں صغیر و کبیر بہر نثار
تخت بہر زنان رقص کناں
چنے رستوں میں بے چنیں و چناں
گل کاغذ سے شہر ہے گلزار
توکہے آئی ہے بہار اے یار
ساقیا عیش کا ہو بزم آرا
سارے لوگوں میں جام مے کو پھرا
جس میں تہ پاوے اس پری کو دے
ورنہ شیشے کی شیشے میں رکھ لے
ہوگی مجلس جو مست آسائش
کون دیکھے گا لطف آرائش
آؤ ساقی قرار ہے باہم
کہ تماشاکناں پھریں خرم
زن رقاص پر نگاہ کریں
کسو سادے سے چل کے راہ کریں
کسو دلبر کے کھینچ لیویں ہاتھ
کسو محبوب کو اٹھالیں ساتھ
کسو خوش رو کے منھ پہ منھ رکھ لیں
کنج لب کا کہیں مزہ چکھ لیں
خوش تنوں سے کریں ہم آغوشی
کسو نازک بدن سے ہم دوشی
کہیں دو جام مے سے ہوں سرمست
جائیں گے تھوڑی دور دست بہ دست
مچلے بن جائیں گے کسو کو دیکھ
پھر منیں گے کسو کے رو کو دیکھ
اب گلابی کو لیں گے بھر بھر ہم
باقی ساقی پئیں گے پھر کر ہم
کہیں آرائش آ کے دیکھیں گے
کاغذیں باغ جا کے دیکھیں گے
کسو مہوش سے ہوویں گے گل باز
کھینچیں گے ایک دو دم اس کے ناز
آؤ ساقی مئے دوآتشہ دے
اسی مے کا بغل میں شیشہ لے
گرم ہو جو دماغ انساں کا
لطف آوے نظر چراغاں کا
جس طرف دیکھیے چراغاں ہے
شیشہ و شمع ہی نمایاں ہے
باغ سے روشنی ہوئی ہے زیاد
ہے یہ ہنگامہ تا جلال آباد
شمع و فانوس کا بہت ہے ہجوم
شمعی رنگوں نے کر رکھی ہے دھوم
لوٹیے ان گلوں کی اب تو بہار
گو کسو کے گلے کا ہوجیے ہار
اب تو اودھم ہی مچ گیا ہر سو
دارو پی کر پھریں چلیں ہم تو
تارے سے ہیں چراغ چار طرف
آسماں پر زمیں رکھے ہے شرف
غنچہ غنچہ دیوں کو دیکھیں جہاں
کسو نوگل سے رکھیں صحبت واں
کہیں نوبت کو چل کے سنیے گا
نے کے بجنے پہ سر کو دھنیے گا
نوبتی خوش سلیقے سارے ہیں
نے نوازوں نے جان مارے ہیں
آج نوبت کے بجنے پر ہے رنگ
عقل ہوتی ہے سن ٹکورے دنگ
جھانجھ کے سننے کی رہی ہے جھانجھ
صبح جوں توں کے ہم کریں ہیں سانجھ
بیچ میں ہولی آئی ہے ساقی
پھیرے سرخوش ہیں تابکے ساقی
شیشہ شیشہ شراب اب پیجے
بلکہ خم منھ لگا کے سب پیجے
سیر کریے کنار نہر و گشت
لالہ و گل کھلے ہیں تا سر دشت
انھیں پھولوں کے انعکاس سے آب
توکہے لالہ رنگ سب ہے شراب
سبد گل ہوئی ہے ہر کیاری
ایک ہے گل زمیں زمیں ساری
درمیاں اک شجر نہیں بدبرگ
ہے ہزارہ کہ لالۂ صدبرگ
جوش لالہ سے تا النگ و سنگ
شفقی ہوگیا ہوا کا رنگ
تخت کیونکر نہ ہو دماغ خاک
دشت در دشت ہے گل تریاک
پھر لبالب ہیں آب گیر رنگ
اور اڑے ہے گلال کس کس ڈھنگ
پاس آتے ہیں مرغ گلشن بھول
تھے وے دلبر گلاب کے سے پھول
زعفرانی لباس تھے سب کے
رسمسے آئے صبح کو شب کے
پگڑیاں جامے بھیگے سو سو ہیں
ان کو گل ہاے تر کہیں تو ہیں
چھڑیاں پھولوں کی دلبروں کے ہاتھ
سیکڑوں پھولوں کی چھڑی سے ساتھ
قمقمے جو گلال کے مارے
مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے
خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں
جشن نوروز ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
عشق ہے اے گروہ آتش زن
دونوں رستے چراغ ہیں روشن
ٹھاٹھ کیا روشنی کے باندھ دیے
شہر میں نام روشن اپنے کیے
دوردو تھے خیال و سوانگ آئے
گھوڑے دامن سوار کیا لائے
روشنی وار سے ہے پار تلک
گل کا کاغذ ہے فرق خار تلک
در دولت سے لے کے تا سر آب
ہے چراغ اور شمع ہی کی تاب
پھر سر پل سے تا عمارت نو
جلتے ہیں مجتمع دیے سو سو
ہاتھی رنگے گئے پڑی ہے دھوم
جیسے ابر سیاہ آئے جھوم
خیمہ استادہ کرچکے شب باز
پتلیوں نے کیا خرام ناز
یاں کی صحبت کا تھا نمونہ سب
شاہ دستور حکم و کار ادب
آئے شکلیں بنا کے صورت باز
ڈوم ڈھاڑی بنے بجا کر ساز
نقل معقول کی سو حاجی بنے
سج کے عمامے سر پہ کتنے جنے
کوئی جوگی کوئی فقیر بنا
کوئی ڈاڑھی لگا کے پیر بنا
کوئی بنیا بنا کوئی اوباش
نقل کرنی تھی ان سبھوں کی معاش
کوئی شاعر بنا نہ جس کی نظیر
جیسے مستغرق خیال تھا میرؔ
کچھ سپاہی بنے تھے کچھ تجار
کوئی زاہد ہوا کوئی خمار
جس کی تقلید کی سو ویسی طرح
اصل ہوتی نہیں ہے ایسی طرح
کرکے سعی و تلاش چاروں دانگ
خوب دیکھا تو ہے یہ عالم سوانگ
آؤ ساقی نہ رکھ خراب احوال
دیے جا جام بادہ مالامال
چل سواری کا سیر بھی ہے بڑا
ایک عالم ہے دونوں رستہ کھڑا
جل زربفت پوش فیل نشاں
کوہ زر سا ہے پیش پیش رواں
کدخدا ہونے کو چلا دولہ
یال گوپال عظم سے جوں شہ
گل کی پاکھر پڑی ہوئی یک بار
ہاتھی آیا بہ رنگ ابر بہار
زری پوشوں کا پیش و پس انبوہ
اللہ اللہ ری ان کی شان و شکوہ
قور میں کتنے سونے کے سے پہاڑ
آگے روپے کے روشنی کے جھاڑ
موتی کرتے تھے ہر طرف سے نثار
تھا مگر فیل ابر گوہربار
ہیں جلو میں زمینیاں حاضر
جاہ کے آسمانیاں حاضر
عمدہ سب ساتھ ہیں وزیر سمیت
شاعراں مدح خواں ہیں میرؔ سمیت
تازی ترکی عراقی و عربی
کوتل آگے تھے خوش جلو میں سبھی
رہ میں رکھ لو جہاں کہ منھ کے نرم
چھیڑے باد سموم سے ہوں گرم
آؤ ساقی پلا شراب ہمیں
روشنی کی نہیں ہے تاب ہمیں
روشنی بھی ہے کوئی ہنگامہ
سیر میں گرم ہوگیا جامہ
گرمی سے مشعلوں کی آئے تنگ
دود مشعل ہے جاے کاہی رنگ
دو طرف سیم بندی کردی ہے
سونے روپے سے راہ بھر دی ہے
شمعیں لاکھوں کنول میں ہیں روشن
زور پھولا ہے کاغذیں گلشن
واہ آتش زنان آتش دست
دارو پی کر پھرو ہو کیسے مست
توپیں کیا ڈھالیں ہیں ستاروں کی
کھوئی رونق فلک کے تاروں کی
تارے موقوف کچھ سما پہ نہیں
توپیں چھوٹیں مگر ہوا پہ نہیں
ماہ بھی چشم روشنی کے لیے
ہے چراغاں ستارگاں سے کیے
گنج چھوٹے ہیں یاکہ باڑ جھڑی
یا ہوائی ہے جگنیوں کی چھڑی
گل فشاں ہیں پڑی جو پھل جھڑیاں
کھلتیاں ہیں دلوں کی گل جھڑیاں
چھوٹتے ہیں انار و مہتابی
رنگ ہیں دلبروں کے مہتابی
باؤ سے دو دیے ہوئے گر ماند
دغیں مہتابیاں کہ نکلے چاند
آؤ اے مطربان سیرآہنگ
ساتھ اپنے لیے رباب و چنگ
ہو غزل خوان بزم عیش و طرب
پر نہ کریو خیال ترک ادب
منعقد مجلس شہانہ ہے
ادب آصف زمانہ ہے
آؤ ساقی مجھے قرابہ دے
در بغل شیشہ ساتھ اپنے لے
بحر بخشش کی لہریں اب آئیں
زر و گوہر کی کشتیاں لائیں
ہے بلند اس کرم کا کیا پایہ
دیتے ہیں خلعت گراں مایہ
طرہ ہاے زری و بادلہ تاس
تختہ ہاے دوشالہ تحفہ لباس
بہت ان میں سیے بہت نہ سیے
ایک دم میں سبھوں کو بخش دیے
خاص ملبوس نوع نوع تمام
لے گئے شاد بھر کے مردم عام
کیا بچھا ہے فراخ دسترخوان
جس پہ ہے خلق یک جہاں مہمان
تورہ بندی ہوئی تکلف سے
کھانے نکلے نئے تصرف سے
لطف کے ساتھ نعمتوں کا وفور
زیر ہر جعبہ قاب ہے پرنور
عام تھا ان لطافتوں سے طعام
دیتے لیتے تھے ہر سحر ہر شام
کس کو اسباب یہ میسر ہیں
ظرف سیمین جعبۂ زر ہیں
ہیں جو مہمان پادشاہ و گدا
حرص دونوں کی سیر ہے یکجا
عمر و دولت ہو اس کی حد سے زیاد
ہے اسی سے جہاں نشاط آباد
آؤ ساقی غزل سرا بھی ہو
لذت شعر سے مزہ بھی ہو

غزل

اب کی بہار کیا کیا دریا پہ رنگ لائی
یک شہر نکلے لالہ پھر اس میں ہولی آئی

کی فکر سال تاریخ آواز غیب آئی
ہم نے کبھو ندیکھی اس رنگ کدخدائی

آنکھوں کی روشنی تھی اپنی ہوئی دوچنداں
طالع نے چاندنی میں کیا روشنی دکھائی

ہو باد جس طرف کی آنکھیں ادھر ہیں اس کی
نرگس کا اس ہوا میں دیدہ بھی ہے ہوائی

بے گل رہے نہ یک دم بلبل کے آہ و نالے
محبوب سے کسو کو یارب نہ ہو جدائی

گل تک ہنسا نہ مجھ سے بلبل نہ بولی ہرگز
کس کس کی بے دماغی بے یار میں اٹھائی

ہم بھی رہے ہوا وہ جب تک جوان جاہل
کی عمر رفتنی نے بارے نہ بے وفائی

اخواں زمانہ کے تو کیا جانیں دل لگی کو
لگتی ہے جس کے دل کو وہ جانتا ہے بھائی

ہے دام گاہ دنیا ہر جا فریب اس میں
دیتی نہیں دکھائی اپنی مجھے رہائی

گذری جو کچھ سو گذری یاری میں دلبروں کی
میرؔ اب کسو سے تم تو کریو نہ آشنائی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.