در حال عشق
ہے غبار وادی وحدت جہاں
کثرت اعیان ہوگی اب عیاں
پرفشاں تھا ٹک جو طاؤس قدم
آسماں پر آسماں پہنچے بہم
عشق اپنا آپ ہی شیدا ہوا
تھا جو پنہاں پردے میں پیدا ہوا
نظم کل کا ڈول ڈالا عشق نے
انس سے انساں نکالا عشق نے
وہ حقیقت سب میں یاں ساری ہوئی
ہے گی ہر شے عشق کی ماری ہوئی
چار سو ہنگامہ آرا عشق ہے
عشق کیا کہیے کہ کیا کیا عشق ہے
عشق ہی کا ہے جہاں میں سب ظہور
نور و ظلمت ہو کہ ہو ظل و حرور
عشق گل ہے عشق بلبل عشق بو
عشق ہے سرو چمن عشق آبجو
ہے کہیں بندہ کہیں ہے یہ خدا
عشق کی ہے ہر جگہ شان جدا
عشق ہر کشور میں لاتا ہے کتاب
عشق کے لوگوں سے ہیں کیا کیا خطاب
یاں سے پیغمبر ہے لایا عشق کا
عشق کو پیغام آیا عشق کا
مسجد و منبر کیے تازہ بنا
واں امام پاک خود آکر بنا
عشق کے آغاز دیکھے رنگ رنگ
موم وے دل ہوگئے جو دل تھے سنگ
سنگ سے پھر لعل نکلا بے بہا
یعنی وہ دل جملگی خوں ہوگیا
کچھ بہا یاقوت سیلانی ہوا
بستہ قطرہ لعل رمانی ہوا
عاشق و معشوق رفتہ عشق کے
یعنی دونوں سینہ تفتہ عشق کے
بھڑکی آتش عشق کی دونوں جلے
ڈوبے دریا میں ہوں گو پانی تلے
یا جلایا ایک ہندستاں کے طور
جا جلے ہے زن بھی اس بے جاں کے طور
جل چکے کو ہندی کہتے ہیں ستی
ست بمعنی استقامت واقعی
آگ میں جا بیٹھے زن کا ظرف کیا
عشق ہی کا جاذبہ دے ہے جلا
گرمی ہنگامہ اس کا قہر ہے
پھونک دیوے گر دیار و شہر ہے
عشق پردہ در نہ ہو رسوا کرے
پھر تماشا ہے جو کچھ پردہ کرے
عشق کو ہے خون کرنے کا مزہ
مار ہی رکھتا ہے اپنے ڈھب چڑھا
مارگیری اس کی سیکھے اژدہے
عشق نے معشوق و عاشق چٹ کیے
عشق و دل میں ہے قدیمی دشمنی
عشق سے ہے دل گدازی جاں کنی
عشق کا پا درمیاں آیا جہاں
دل ٹھہرتا واں نہیں ہرگز نہ جاں
عشق دشمن ہے بلاے جان و دل
عشق ہے ہم دل شکن ہم جاں گسل
ہے سلوک عشق کا مارا جہاں
خاک میں ان نے ملایا آسماں
کون راہ عشق کو کرتا ہے سر
ہر طرف ہے جان کو اس میں خطر
عشق زورآور سے سب ہیں ترس ناک
کشتی اس کی ہوگئی عالم سے پاک
عشق کا ہے بادیہ مشکل گذر
دیکھے اودھر مر ہی جاتے ہیں نمر
روبہ اس جنگل میں ہے شیر دلیر
وہ کوئی واں جائے جو ہو جی سے سیر
دژ کہ ہاتھی کم کرے ہے کوئی میل
بچ کے نکلے ہے ادھر سے تند سیل
بالا بالا دیوقد گینڈا گیا
اینڈا اینڈا راہ واں اس پر چلا
یوز ہیں گے فکر ترک گشت میں
کب گیا کفتار ایسے دشت میں
عشق کے جنگل میں ہیبت سے طیور
پرفشاں ہوتے نہیں ہیں دور دور
قو نہیں پر مارتا ازبس ہراس
کب اڑا سیمرغ اس کے آس پاس
کیا درندہ کیا چرندے کیا پرند
دل ہے جن کے عشق ہے ان کا کشند
آدمی سے خاص اس کو لاگ ہے
بہر انساں عشق کی تیز آگ ہے
دل بڑا ہے اس کا ہر کار کلاں
یک بیک کرنا قبول اس کو بجاں
ہمت عاشق جو ہے ازبس بلند
کار باطل ہی ہیں اس کے حق پسند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |