در مدح بادشاہ جم جاہ، خاور سپاہ، شاہ عالم بادشاہ
جو پہنچی قیامت تو آہ و فغاں ہے
مرے ہاتھ میں دامن آسماں ہے
کوئی آج سے ہے فلک مدعی کیا
ہمیشہ مرے حال پر مہرباں ہے
کدورت بیاں کیا کروں میں کہے تو
یہ دل گرد کلفت کا یک کارواں ہے
جو روتا بھی ہوں میں غبار دلی سے
تو آنسو کا سیلاب ریگ رواں ہے
جو دل میں ہے آتا ہے کہنے میں بھی وہ
زباں میری دل کی مگر ترجماں ہے
عجب مخمصے میں ہوں جور فلک سے
حوادث کے تیروں کا سینہ نشاں ہے
سحر جام خوں ہے جو منھ دھو چکوں ہوں
یہ مفلوک ایسے کے گھر میہماں ہے
رمق ایک جی ہے سو ایک آدھ دم کا
اسے قصد اب تک مرا امتحاں ہے
اس احوال کا رنگ رو بس ہے شاہد
جو دل میں ہے میرے سو منھ پر عیاں ہے
یہ شکوہ تھا درپیش مجھ کو کہ ناگہ
پکاری خرد ہوش تیرا کہاں ہے
تو مر جائے گا یوں تو رکتے ہی رکتے
کہ اندوہ و غم آفت ناگہاں ہے
غزل لطف کر میرؔ صاحب کی کوئی
کہ ان کی زباں بیچ سحر بیاں ہے
کہا میں نے مطلع غزل کا یہ سن کر
کہ ہر طرف سے جس کے لوہو رواں ہے
غزل (مطلع ثانی)
ترے ہاتھ جب تک کہ تیر و کماں ہے
شکار زبوں کی بھی خاطرنشاں ہے
کہے تو کہ شکل مثالی ہوں اپنی
مرا جسم اس لطف سے ناتواں ہے
تری اور اے سادہ رو بعد میرے
مرا نامہ ننوشتہ ہر استخواں ہے
اسیری میں سارا قفس بوے گل سے
معطر ہوا گو دماغ اب کہاں ہے
نہ پوچھ اس طلسمات عالم کی صنعت
کہ اس آشکارا میں کیا کیا نہاں ہے
خوشا مرگ بلبل کہ سائے میں گل کے
کہیں مشت پر ہے کہیں آشیاں ہے
درود اس کے تیں دیکھ کر بھیجتے ہیں
وہ نوگل بھی صل علیٰ کیا جواں ہے
لگے ہے نہ اب عطرداں اس کے منھ کو
نہ اس بوے خوش سا یہ گل کا دہاں ہے
غرور خرابات چل شیخ دیکھیں
جو ترسابچہ ہے سو پیر مغاں ہے
ہے بس شاہد حال رنگ شکستہ
جو دل میں ہے میرے سو منھ پر عیاں ہے
نہ کہہ خانوادے تھے یاں کیسے کیسے
خرابہ ہی ہے جب تلک یہ جہاں ہے
دم امتحاں میرؔ ہم کیا کریں گے
ہماری گرہ میں تو اک نیم جاں ہے
چل اے طبع مشتاق وصف بتاں پر
کہ غم ان کا دل میں مرے یک جہاں ہے
یہی شغل ہیں خوب پیش فقیراں
کہ ذکر خدا ہے کہ وصف بتاں ہے
نہ جا اس کے خاموش رہنے پہ بلبل
زباں غنچۂ گل کے زیر زباں ہے
نہ دے جان شیریں کو تلخی سے ناحق
تری محنت اے کوہکن رائیگاں ہے
میں پس ماندۂ قافلہ دل جلا ہوں
کہے تو کہ یہ آتش کارواں ہے
جو ہو راہ گم گشتہ یاں ہوکے جاوے
کہ مجھ پاس یک داغ دل سوز یھاں ہے
سموم آوے ہے سایۂ برگ گل میں
مگر خاک مرغ چمن پرفشاں ہے
مری آہ کیا برچھیاں مارتی ہے
دل شب سے ہر دم صدا الاماں ہے
جگر پر جو ہیں داغ ہجراں پریشاں
یہ گویا خزاں دیدہ اک گلستاں ہے
رخ زرد پر اشک سرخ آگئے ہیں
ادھر بھی اک ابر بہاری سماں ہے
خط و زلف و کاکل میں دل جاکے الجھا
نہ سمجھا یہ ناداں کہ ہندوستاں ہے
چمن زار عالم کی خوبی پہ مت جا
دل اس بے ثباتی پہ خندہ زناں ہے
کہ یک رنگ یاں کا نہیں ہے قراری
بہار آئی ایدھر کہ فصل خزاں ہے
حقارت سے مت دیکھ یہ پھوٹی گوریں
کہ ہر اک فلاں بن فلاں بن فلاں ہے
خیال اور مت کر کہ مجھ میں نہیں کچھ
مری جاں ترا وہم ہے یا گماں ہے
اٹھی رسم صوم و صلوٰۃ اس کے دیکھے
خرابی یہ مسجد پہ جو ہے ازاں ہے
گریباں کفن کا تو رہنے دے ثابت
مری خاک سے کیوں تو دامن کشاں ہے
رگ گل رگ جاں کمر سے نہیں ہے
تو کہتا ہے کیا یاں سخن درمیاں ہے
خط کنج لب گوشۂ چشم و کاکل
رہے شاد وہ غم زدہ دل جہاں ہے
نہیں فرصت واشدن اس چمن میں
گل اس غم سے اپنا گریباں دراں ہے
بہت ہرزہ خواں ہے گا اے میرؔ تو بھی
وظیفہ ترا کیا یہ ذکر بتاں ہے
جو مرکوز خاطر ہے اس پر بھی آجا
فراغت کا عرصہ یہی اک زماں ہے
سن اے ہم نشیں شخص غائب کی خاطر
یہ مطلع کہ مطلب سے جو تواماں ہے
مطلع ثالث
قلم چل ابھی چلتی تیری زباں ہے
کہ پھر بات کہنے کی فرصت کہاں ہے
ولیکن تجاوز نہ ہووے ادب سے
کہ ممدوح اب شاہ ہندوستاں ہے
دماغ اب نہیں ہے جو تمہید کریے
کہ کل رات ہے اور یہ داستاں ہے
بھٹئی تیری کیجے یہ دل چاہتا ہے
ترے شکر نعمت میں قاصر زباں ہے
ترا عہد یک سرخوشی ہے جو ہے بھی
گنہگار سا یک غم مہوشاں ہے
ترے یاں ہے سب راستی و درستی
مگر ما صدق سچ کا یہ خانداں ہے
زیارت کیے صدق آتا ہے جس کی
ترا جبہۂ راستاں آستاں ہے
لکھے کیا شہا کوئی ہمت کو تیری
جہاں صبح اس خوان پر میہماں ہے
زیادہ ہو یہ وسعت رزق تیری
کہ مشرق سے تا غرب دستار خواں ہے
کرے ہم سری کیا وہ خورشید اوپر
فلک پاس کیا ہے یہی ایک ناں ہے
ترے ہاتھ کی ریزش جود آگے
خجالت سے یہ ابر قطرہ زناں ہے
تجھے مرجع کل کیا ہے جہاں کا
ترا دست ہے فرق خرد و کلاں ہے
ولی نعمتا عدل سے تیرے اب یاں
کتاں تھا سو مہ ہے جو مہ تھا کتاں ہے
ترے ہوش کے آگے ہے طفل ناداں
اگرچہ یہ پیر خرد کارداں ہے
سن اے خامہ آ مطلع چارمیں لکھ
کہ ممدوح کے زور کا اب بیاں ہے
مطلع رابع
ترے زور بازو کی طاقت عیاں ہے
کہ بز جس کی قوت سے شیر ژیاں ہے
ترے زور کا سکہ ہے اس چمن میں
گل اشرفی غنچۂ مہرگاں ہے
ترا ہاتھ پڑ جائے گر رستم اوپر
جہاں میں وہ مشہور کیا پہلواں ہے
اٹھاتا نہیں اس کو سن کوئی گردن
وہ اس عرصے میں ایک سنگ گراں ہے
تو یوں پھینک دے جیسے سنگ فلاخن
جہاں جاکے گڑ جائے سنگ نشاں ہے
کہ جو کوئی اس راہ نکلے سو دیکھے
یہ افسانہ ہر شہر کا ارمغاں ہے
ثنا کے ترے عرصے میں کریے جولاں
کمیت قلم ہاتھ کے زیر راں ہے
اچک لے جہاں باگ کیا کیا مزے ہیں
یہ نام خدا اسپ کیا خوش عناں ہے
سبک سیر کی تیرے کیا کہیے جلدی
پھر اس فربہی پر کہ تخت رواں ہے
ازل سے ابد تک ہے جولاں گہ اس کی
قدم ایک یاں اک قدم اس کا واں ہے
جو اس میں سوار اس کا چاہے کہ ڈپٹے
ارادے میں اس کے ابھی حرف ہاں ہے
نہ پہنچے وہ ہونٹوں تلک اس کے ہرگز
کہ یہ بادپیما کہاں کا کہاں ہے
جو میدان میں جنگ کے ہو یہ اشہب
تو گھوڑا نہ کہیو کہ پیل دماں ہے
لگے گر کہیں ٹاپ طبق زمیں پر
فلک صدمے سے آں سوے لامکاں ہے
دعا پر کروں ختم اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں تو چنیں ہے چناں ہے
رہے وقت ایسا ہی روز جزا تک
کہ جو دوست تیرا ہے تو شادماں ہے
تری عمر ہو میرے طول امل سی
کرم کا سا سررشتہ اک تیری ہاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |