Jump to content

در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ (II)

From Wikisource
در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓ
by میر تقی میر
314942در مدح حضرت علی مرتضےٰ ؓمیر تقی میر

غنچے ہو دل پر آتے ہیں اندوہ اب مدام
پہنچے ہے مجھ کو داغ گل جنگ صبح و شام
اے کج روش تو نامہ نہ لکھ بھیج مت پیام
قاصد کا میرے سیدھی طرح سے تو لے سلام
دل میں نہیں ہے قطرۂ خوں آنکھیں ہیں گی تر
خالی پڑا ہے شیشۂ مے بھر رہے ہیں جام
ناکامیوں سے کام رکھا میں تمام عمر
گو کام دل حصول نہ ہو مجھ کو کیا ہے کام
اے رشک ماہ عید نہ کر انتظارکش
مکھڑا دکھادے چاند سا ٹک آکے پشت بام
زنجیر پا ہے اس کی تری زلف غالباً
مدت ہوئی نسیم نہیں کرتی ابتسام
چلتا ہے تو تو جاتے ہیں کتنوں کے جی چلے
آ اب کسو کی مان لے موقوف کر خرام
آوارگی سے دل ہی کی آسودگی کو چھوڑ
ناموس عافیت کو اڑا کیسا ننگ و نام
گر جانتا مژہ کو تری تیغ کیں تو میں
دو چار جانیں اور بھی کر لاتا قرض و وام
رونے کا تار باندھ تفرج نہیں ہے خوب
ہے آنسوؤں کا سلک گہر کا سا انتظام
اک دم تری گلی میں گیا تھا میں سیر کو
لبریز بوے خوں سے ہے اب تک مرا مشام
صیاد نے اسیر کیا مجھ کو پر عبث
میں ٹک جیا نہ فرط تپیدن سے زیر دام
آنکھوں سے اس کی چشم وفا میرؔ ہے غلط
وحشی ہیں یہ غزال نہ ہوں گے کسی سے رام
چشم طمع کو سی لے ہما تو کہ جیتے جی
سرمہ ہوئے ہیں پس کے الم سے مرے عظام
اے طبع اتنی ہرزہ درائی جرس کی طرز
اس گفتگو کا فائدہ کہہ حاصل کلام
یعنی امیر شاہ نجف کی صفت پر آ
وہ شاہ جس پہ سارے کمالات ہیں تمام
وہ شاہ ہے کہ بعد نبیؐ کے وہی ہے پھر
وہ شاہ ہے کہ حق ہے وہی اولیں امام
گر چاہے دل گرفتہ جہاں میں نہ ہو کوئی
کر دے یہ تنگ غنچۂ پیکاں کو ابتسام
ورنہ شگفتگی یہ بلاے عظیم ہے
چھوڑے نہ زخم سینۂ عاشق تک التیام

مطلع ثانی

شاہا ترے گدا کا ہے مشہور احتشام
شاہان سرفراز ہیں سب اس کے پائے نام
ہو اسپ پر سوار کرے عزم جنگ اگر
میدان کارزار میں ادنیٰ ترا غلام
جو لاں کرے جدھر کو رہے اس طرف نہ خاک
اڑ جائے خاک ادھر کی جدھر کو پھرے لگام
پامال اس قدر ہوں کہ معلوم بھی نہ ہوں
افراسیاب کون ہے رستم ہے یاں کدام
شمشیر اس کی خرمن اعدا کی ہے جو برق
آوے جو اس کے ہاتھ میں یک لحظہ بے نیام
ہل جائے اور ٹک صف اعدا کی اور کو
بے سر ہیں پھر تو مدنظر تک بدن تمام
یہ بات میں کہوں ہوں نظر کرکے مایؤل
گر آسماں پہ جائے تہ خاک ہے مدام
شاہا ترے غلام کے حملے کی کس کو تاب
گو پہلواں ہزاروں لیے آئے اس پہ سام
وہ سام بن نریماں کہ اب تک جہاں کے بیچ
افسانے اس کے زور کے کرتے ہیں دھوم دھام
ایک ایک کو زمین میں دے گاڑ اس سمیت
تحت الثریٰ کو جائے مع اپنے ازدحام
طبقہ زمیں کا جائے اکھڑ اس کے زور سے
چنداں عجب نہیں کہ ہوا ہووے تیرہ فام
از بس اڑے ہے خاک جدھر دیکھوں تس طرف
جاتے ہیں کورچشم تماشائی ہو عوام
مطلع کروں ہوں اور بھی موزوں میں اس جگہ
تا ہو بہ خیر و خوبی قصیدے کا اختتام

مطلع ثالث

اے بعد فوت ختم رسلؐ صاحب اہتمام
وے اولیں امام و سزاوار احترام
از بس کہ تیرے نقش سے گم ہیں محرمات
رسام کھینچے خفت اگر چاہے ارتسام
عصفور کس شمار میں پر تیرے عدل سے
گنتی نہیں ہے باز شکاری کی اعتصام
تو ہے کہ تجھ کو ذات خدا سے ہے ربط خاص
تو ہے کہ ساری خلق پہ تیرا ہے فیض عام
تو ہے کہ تیرے مہر کے سائے میں روز حشر
محفوظ آفتاب قیامت سے ہوں انام
ہیں سہل تیرے خشم کے آگے خرابیاں
مشکل یہ ہے کہ ہووے فلک کا نہ انہدام
چاہے تو اعتدال زمانہ ٹک ایک اگر
ایک ہی ہوا ہے پھر تو جہاں میں علی الدوام
چاہے اگر تو یہ کہ نہ روپوش ہووے روز
تہ کرکے شب اٹھا ہی رکھے پردۂ ظلام
گرمی کرے تنک بھی اعانت تری تو پھر
آجائے پختگی پہ مرا یہ خیال خام
یعنی کہ دیکھوں حضرت دہلی کی جا نواح
معلوم ہے سواے ترے حاصل کلام
ہرگز نہ ہو حلال عدو پر ترے خوشی
ہووے تمام تیرے محبوں پہ غم حرام


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.