در پہ تیرے پکار کی فریاد
Appearance
در پہ تیرے پکار کی فریاد
سمع تو نے نہ یار کی فریاد
نہیں سنتا ہے لالہ رو میرا
اس دل داغ دار کی فریاد
آہ سنتا ہے کب وہ رشک بہار
ہم نے گو اب ہزار کی فریاد
دیکھ اس رشک گل کو جوں بلبل
میں نے بے اختیار کی فریاد
ہجر میں تیرے میری آنکھوں نے
رو رو جیوں آبشار کی فریاد
روز سنتے ہیں ہم خزاں میں آہ
بلبلوں سے بہار کی فریاد
شرر گرم عشق پر جل کے
دل نے اسپند وار کی فریاد
کون سنتا ہے کس سے جا کہیے
اس دل بے قرار کی فریاد
نالۂ زار کو مرے سن کر
نے نیں ہو دل فگار کی فریاد
راہ الفت میں میں نے ہو دل چاک
جیوں جرس بار بار کی فریاد
گل نے بلبل کی سن لی سن تو بھی
اپنے مہجور زار کی فریاد
اف نہ حلق بریدہ نے کی مرے
خنجر آب دار کی فریاد
ہو گیا خاک پر کسی سے نہ کی
میں نے اس شہسوار کی فریاد
کیا جہاں دارؔ عرض کرتا ہے
سنیو اس خاکسار کی فریاد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |