در پہ رہے یہ دیدۂ گریاں تمام عمر
Appearance
در پہ رہے یہ دیدۂ گریاں تمام عمر
لیکن بجھی نہ آتش ہجراں تمام عمر
ڈالا ہے اس کو جذب محبت نے چاہ میں
دیکھا نہ جس نے تھا کبھی زنداں تمام عمر
واقع میں یہ ہے حرف شکایت بھی کیا کہیں
نکلا نہ کوئی جو مرا ارماں تمام عمر
پامال کو بھی ہم نے کیا اپنا ہم جلیس
چھانا کیا میں خاک بیاباں تمام عمر
راتوں کو میرے واسطے اٹھتا ہے بار بار
بھولوں گا درد دل کا نہ احساں تمام عمر
کیا مجھ کو اپنی یاد سے خلقت نے کھو دیا
سمجھا کیا میں آپ کو انساں تمام عمر
عارفؔ لکھیں ہیں اس میں مضامین انتشار
ہووے گا جمع میرا نہ دیواں تمام عمر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |