Jump to content

در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا

From Wikisource
در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا
by ریاض خیرآبادی
298573در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کاریاض خیرآبادی

در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا
عکس سورج ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

حسن موجوں کا چھلکنا بھرے پیمانے کا
رقص پریوں کا ہے عالم ہے پری خانے کا

ہائے زنجیر شکن وہ کشش فصل بہار
اور زنداں سے نکلنا ترے دیوانے کا

صدقے اس سوز کے جو سوز ہو اس حسن کے ساتھ
شعلہ گویا پر پرواز ہے پروانے کا

ہوں وہاں غم ہے جہاں ہستئ موہوم مری
دوسرا نام عدم ہے مرے ویرانے کا

نہ بیاں ہو جو ملے صبح ازل شام ابد
حشر ہے بیچ کا ٹکڑا مرے افسانے کا

پردہ بھی بات بھی جلوہ بھی پس دامن برق
شوخیاں ہیں کہ یہ انداز ہے شرمانے کا

بال کے بدلے نظر آتے ہیں اس میں سو چاک
عکس آئینۂ دل پر بھی پڑا شانے کا

پیٹ میں خم کے ہے جو کچھ وہ بھرا ہے اس میں
منہ نہ کھلوا ارے واعظ مرے پیمانے کا

کیا تصور ہی سے اٹھ جاتے ہیں پردے دل کے
دل بھی کیا نام ہے ان کے کسی کاشانے کا

رکھتی ہے عالم نو شورش ہنگامۂ عشق
حشر اک حرف غلط ہے مرے افسانے کا

آپ کے ہار کی کلیوں سے یہ ملنے کا نہیں
دل ہے مٹی کا نہ گھلنے کا نہ مرجھانے کا

کھنچنے والی کی جھلک دیکھی ہے جب سے ساقی
دیکھنا منہ مجھے انگور کے ہر دانے کا

پھرتی ہے حشر کے دن آنکھ کے نیچے شب وصل
ہائے انداز وہ اس زلف کے بل کھانے کا

شمع کعبہ رہے محفوظ الٰہی تا حشر
نام روشن ہے اک اجڑے ہوئے بت خانے کا

نہ ہوا تھی نہ مری آہ عدو تھے وہ تھے
حال شب کو نہ کھلا شمع کے بجھ جانے کا

لوگ کہتے ہیں کہ ہے زاہد مرتاض ریاضؔ
رند کہتے ہیں اسے چور ہے مے خانے کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.