در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا
در کھلا صبح کو پو پھٹتے ہی مے خانے کا
عکس سورج ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
حسن موجوں کا چھلکنا بھرے پیمانے کا
رقص پریوں کا ہے عالم ہے پری خانے کا
ہائے زنجیر شکن وہ کشش فصل بہار
اور زنداں سے نکلنا ترے دیوانے کا
صدقے اس سوز کے جو سوز ہو اس حسن کے ساتھ
شعلہ گویا پر پرواز ہے پروانے کا
ہوں وہاں غم ہے جہاں ہستئ موہوم مری
دوسرا نام عدم ہے مرے ویرانے کا
نہ بیاں ہو جو ملے صبح ازل شام ابد
حشر ہے بیچ کا ٹکڑا مرے افسانے کا
پردہ بھی بات بھی جلوہ بھی پس دامن برق
شوخیاں ہیں کہ یہ انداز ہے شرمانے کا
بال کے بدلے نظر آتے ہیں اس میں سو چاک
عکس آئینۂ دل پر بھی پڑا شانے کا
پیٹ میں خم کے ہے جو کچھ وہ بھرا ہے اس میں
منہ نہ کھلوا ارے واعظ مرے پیمانے کا
کیا تصور ہی سے اٹھ جاتے ہیں پردے دل کے
دل بھی کیا نام ہے ان کے کسی کاشانے کا
رکھتی ہے عالم نو شورش ہنگامۂ عشق
حشر اک حرف غلط ہے مرے افسانے کا
آپ کے ہار کی کلیوں سے یہ ملنے کا نہیں
دل ہے مٹی کا نہ گھلنے کا نہ مرجھانے کا
کھنچنے والی کی جھلک دیکھی ہے جب سے ساقی
دیکھنا منہ مجھے انگور کے ہر دانے کا
پھرتی ہے حشر کے دن آنکھ کے نیچے شب وصل
ہائے انداز وہ اس زلف کے بل کھانے کا
شمع کعبہ رہے محفوظ الٰہی تا حشر
نام روشن ہے اک اجڑے ہوئے بت خانے کا
نہ ہوا تھی نہ مری آہ عدو تھے وہ تھے
حال شب کو نہ کھلا شمع کے بجھ جانے کا
لوگ کہتے ہیں کہ ہے زاہد مرتاض ریاضؔ
رند کہتے ہیں اسے چور ہے مے خانے کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |