در ہجو اکول
اک ہے پرخور آشنا بے پیر
سینہ سوراخ جس سے ہے کف گیر
صدمنی دیگ ہے شکم اس کا
نفس اژدہا ہے دم اس کا
آنت شیطان کی ہے اس کی آنت
دانت اس کا ہے ہاتھی کا سا دانت
خستۂ جوع وہ جو آوے نہار
منھ ہے گویا کہ زخم دامن دار
شکل مت پوچھ کھانے کا ہے بلی
منھ ہے چھیپوں سے جیسے روٹی جلی
گال کلچے سے پھر توے سے سیاہ
کاسۂ سر ہے جیسے اوندھا کڑاہ
توند کالی جو کھول جاوے لیٹ
آہنیں ہے تنور اس کا پیٹ
راہ مطبخ میں پاوے ہے جو کبھی
چاٹ جاتا ہے دیگچوں تک بھی
کھینچے باورچیوں کے کیا کیا ناز
کتری گئی اس کے چوتڑوں پر پیاز
کھانا نکلے پر آوے ہے کیسے
چیل ٹوٹے ہے گوشت پر جیسے
وقت کھانے کے ہاتھ سے اس کا
قاب پر نان پنجہ کش گویا
کیا وہ دوپیازہ کھا کے ہو تازہ
اک نوالہ ہے ملا دوپیازہ
گوشت ہانڈی بھرا ہے ختک میں
ہنڈیاں گویا تھیں اس کی خشتک میں
خام طمعی سے اک کرے ہے آہ
دیکھ کر شب کو نان ہالۂ ماہ
نہ ٹلے دیکھ کر وہ قاب پلاؤ
منھ ہے منھ بیٹھا گرچہ کھاوے گھاؤ
کھانے پر جب وہ جی چلاتا ہے
لاٹھی پاٹھی بھی کھائے جاتا ہے
نہیں پہنچے جو کھانا کھانے لگ
ہڈیوں پر لڑے ہے جیسے سگ
بھوکھ کا باولا جو آتا ہے
لوگوں کو کاٹ کاٹ کھاتا ہے
دہوں میں دشمنوں سے بھی وہ لئیم
جائے گھل مل اگر سنے ہے حلیم
آش بغرا پہ مار بھی کھاوے
اس میں گو بوغرا نکل جاوے
کسی مفلس کے گھر جو جاتا ہے
کچھ نہیں خفتیں ہی کھاتا ہے
بھوکھ سے جب کہ غصے میں آوے
بز کوہی کی طرح جھنجھلاوے
ٹھڈیوں کو نگہ سے کھا جاوے
چنے لوہے کے بھی چبا جاوے
دہر کا جلنا آگ سے مانوں
بھوکھ اس کی جلے تو میں جانوں
نکلے بازار میں وہ جب چربوز
سر ہی پھوڑے ہے دیکھ کر تربوز
گھاس پات اور کانس کھاتا ہے
نیشکر پر وہ بانس کھاتا ہے
اس کے آنے کی سن کے بازاری
کرتے ہیں سودوں کی خریداری
کوئی تختہ کرے ہے دوکاں کو
کوئی لاوے بلا گزرباں کو
کنجڑے ڈھانکے ہیں ساگ پات اپنا
تکتے ہیں بنیے داؤ گھات اپنا
کہ مبادا ادھر کو آجاوے
سودے یک سو ہمیں نہ کھا جاوے
اینٹ پتھر بھی کھا گذر جاوے
الغرض پیٹ اپنا بھر جاوے
کیا کیا جینے کے کہیے چکھتا ہے
لیک پیٹ اس کو مارے رکھتا ہے
پیٹ اپنا بڑا جو پاتا ہے
گوہ تک کا بھی جیفہ کھاتا ہے
وہ قضارا ہوا مرا مہمان
کھا گئی اس کی میزبانی جان
گھر میں جو کچھ تھا بیچ منگوایا
کھانا اس کے لیے میں پکوایا
کتنا کھانا بیاں کروں تجھ سے
جس پہ سو میہماں کروں تجھ سے
مجھ سے تھی روزگار سے ان بن
خوب کھانا جو تجھ پہ ہے روشن
چار من گاجروں کا قلیہ تھا
دہ منی دیگ بیچ دلیہ تھا
روٹیاں کس قدر بتاؤں میں
جس کو دوچار سال کھاؤں میں
چاہ کرکے گرا جو وہ بلاع
مدد روح اشعب طماع
کہنے لاگا میں ہوکے بجوالا
کیا ہوا یاں سے قلیے کا پیالہ
تھی ابھی روٹیوں کی جیٹ کی جیٹ
میں رہا کہتا کھا گیا وہ سمیٹ
کھانا کوئی اور کیا کہے اس کا
سارے منھ دیکھتے رہے اس کا
جب مرے گا وہ بھوکھ کا روگی
روح توشے کی روٹی میں ہوگی
کھانے کی بو جو ناک میں پیٹھے
مر گیا ہووے تو بھی اٹھ بیٹھے
عقل باور اگرچہ کرتی نہیں
وہ مرے بھوکھ اس کی مرتی نہیں
بھوکھے اس کا جو جی نکل جاوے
گور میں بھی کفن نگل جاوے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |