دشت پیمائی کا گر قصد مکرر ہوگا
Appearance
دشت پیمائی کا گر قصد مکرر ہوگا
ہر سر خار پئے آبلہ نشتر ہوگا
مے کدے سے ترا دیوانہ جو باہر ہوگا
ایک میں شیشہ اور اک ہاتھ میں ساغر ہوگا
حلقۂ چشم صنم لکھ کے یہ کہتا ہے قلم
بس کہ مرکز سے قدم اپنا نہ باہر ہوگا
دل نہ دینا کبھی ان سنگ دلوں کو یارو
چور ہووے گا جو شیشہ تہہ پتھر ہوگا
دیکھ لیتا وہ اگر رخ کی تجلی تیرے
آئنہ خانۂ مایوسی میں ششدر ہوگا
چاک کر ڈالوں گا دامان کفن وحشت سے
آستیں سے نہ مرا ہاتھ جو باہر ہوگا
اے رساؔ جیسا ہے برگشتہ زمانہ ہم سے
ایسا برگشتہ کسی کا نہ مقدر ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |