دشمن کی طرف ہو کے نکلنے نہیں دیتے
دشمن کی طرف ہو کے نکلنے نہیں دیتے
ہم کو وہ بری راہ بھی چلنے نہیں دیتے
آنکھیں ہمیں تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
ہم چٹکیوں سے دل کو مسلنے نہیں دیتے
کہتے ہیں مئے ناب حسینوں کا ہے جوبن
ہم بزم میں اپنی اسے ڈھلنے نہیں دیتے
وہ کیا لحد غیر کو پامال کریں گے
چلتے ہوئے فقرے بھی تو چلنے نہیں دیتے
جلتا ہوں بچاتے ہیں اسے سوز دروں سے
دشمن کو مری آگ میں جلنے نہیں دیتے
نازک ہے مرے نخل تمنا کی ہر اک شاخ
اس خوف سے وہ پھولنے پھلنے نہیں دیتے
کب بوسے لیے ان کے جو بل کھائے ہیں گیسو
تم گالوں کو کیوں زہر اگلنے نہیں دیتے
آئی ہے یہ کہتی ہوئی کس کی شب فرقت
ہم رنگ زمانے کو بدلنے نہیں دیتے
ڈر ہے نہ دوپٹہ کہیں سینے سے سرک جائے
پنکھا بھی ہمیں پاس سے جھلنے نہیں دیتے
کیوں ہم کو جلاتے ہو دم وصل یہ کیا ہے
کیوں پھونکتے ہو شمع کو جلنے نہیں دیتے
ہے جان مری کشمکش نزع میں دن رات
ارمان تو کیا دم بھی نکلنے نہیں دیتے
کھلنے نہیں دیتے کبھی کم ظرفی واعظ
ہم رند پلا کر بھی ابلنے نہیں دیتے
جاتا ہوں تو آتی ہے یہی طور سے آواز
ہم دیکھنے والوں کو سنبھلنے نہیں دیتے
کیا کام ریاضؔ آنے کو سو بار بہار آئے
ہم کو یہ حسیں پھولنے پھلنے نہیں دیتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |