دعائیں مانگیں ہیں مدتوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
دعائیں مانگیں ہیں مدتوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ہوا ہوں تب میں بتوں کا بندہ خدا خدا کر خدا خدا کر
دعا لب جام نے بھی مانگی سبو نے بھی ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ہماری محفل میں آیا ساقی خدا خدا کر خدا خدا کر
دکھایا وحدت نے اپنا جلوہ دوئی کا پردہ اٹھا اٹھا کر
کروں میں سجدہ بتوں کے آگے تو اے برہمن خدا خدا کر
ہیں اشک زخموں سے میرے جاری نہ دیکھی ہوگی یہ اشک باری
بنی ہیں چشم پر آب قاتل یہ زخم پانی چرا چرا کر
کہاں وہ شکلیں کہاں وہ باتیں کہاں وہ جلسے کہاں وہ محفل
یہ سب کا سب خواب کا تھا ساماں چھپا لیا بس دکھا دکھا کر
برنگ ساغر ملا دیا منہ جو منہ سے تیرے خفا نہ ہونا
کیا ہے بے ہوش تو نے ساقی شراب مجھ کو پلا پلا کر
اٹھایا یاروں نے پر نہ اٹھا زمیں سے ہرگز ہمارا لاشہ
یہ کس نے ہم کو ہے مار ڈالا نظر سے اپنی گرا گرا کر
جو پہنچیں ہم مرغ نامہ بر کو تو چٹکیوں میں اسے اڑا دے
اگر چہ وہ طفل کھیلتا ہے پر کبوتر اڑا اڑا کر
پس از فنا بھی اگر تو آئے کروں سگ یار میہمانی
کہ استخوانوں کو اپنے تن میں رکھا ہما سے چھپا چھپا کر
گرے اگر سرکشی ہو مجھ سے ابھی فلک کو زمیں پہ پٹکوں
کہ توڑ ڈالے میں ایسے مینے ہزاروں شیشے اٹھا اٹھا کر
کبھی مرے دل سے کرتی ہیں بل کہی ہیں شانے سے یہ الجھتیں
غرض کہ زلفوں کو تو نے ظالم بگاڑا ہے سر چڑھا چڑھا کر
شکست لکھتا تھا نام دل کا یہی تھی طفلی میں مشق تیری
بنا دیا دل شکن یہ تجھ کو معلموں نے لکھا لکھا کر
بڑے گلے ہیں اجل کو تجھ سے مسیح کو بھی بہت ہیں شکوے
کہ دم میں تو نے ہیں مار ڈالے ہزاروں مردے جلا جلا کر
پلانا پانی کا جام زاہد گناہ مشرب میں ہے ہمارے
ثواب لیتا نہیں ہے کیوں تو شراب مجھ کو پلا پلا کر
نہیں کوئی رازدار ہم سا کیا نہ وحشت میں تجھ کو رسوا
کہ داغ مانند خار ماہی بدن میں رکھے چھپا چھپا کر
گلے ہزاروں نے اپنے کاٹے ہزاروں بے وجہ ہو گئے خون
بہت ہوا پھر تو یار نادم کف حنائی دکھا دکھا کر
نگہ کی صورت پھرو نہ ہر سو حجاب تم مردمک سے سیکھو
اب آؤ آنکھوں میں سیر دیکھو مژہ کی چلمن اٹھا اٹھا کر
دکھا کے گل سے عذار تو نے کیا دل عاشقاں کو بلبل
بنا دیے گوش غیرت گل صدائے رنگیں سنا سنا کر
گناہ کرتا ہے برملا تو کسی سے کرتا نہیں حیا تو
خدا کو کیا منہ دکھائے گا تو ذرا تو اے بے حیا حیا کر
چلا ہے محفل سے اپنے ساقی دکھاؤں میں اپنی اشک باری
کروں بط مے کو مرغ آبی ابھی سے دریا بہا بہا کر
رلائے برسوں ہنسی تو جس سے دکھائے گر زلف مار رکھے
کرے تو در پردہ راہ دل میں جو دیکھے پردہ اٹھا اٹھا کر
وہی اثر ہے جنوں کا اب تک وہی ہے لڑکوں کو اب بھی کاوش
کہ میری مٹی کے روز مجنوں بگاڑتے ہیں بنا بنا کر
عجب نہیں نامۂ عمل کا دلا ہو کاغذ اگر خطا کے
خطائیں کیں میں نے آشکارا کیے ہیں عصیاں چھپا چھپا کر
اثر ہے چاہ ذقن کی الفت کا بعد مردن بھی آہ باقی
کہ کھیلتی ہیں ہماری مٹی کے ڈول لڑکے بنا بنا کر
کیا ہے پوشیدہ عشق ہم نے کسی سے در پردہ ہے محبت
پڑے ہوئے بستر الم پر جو روتے ہیں منہ چھپا چھپا کر
جو خوف طوفان اشک سے اب نہیں ہے جاتا نہ جائے قاصد
رواں کروں سوئے یار جانی خطوں کی ناویں بنا بنا کر
ترا سا قد بن سکا نہ ہرگز تری سی صورت نہ بن سکی پھر
اگر چہ صانع نے لاکھوں نقشے بگاڑ ڈالے بنا بنا کر
ادھر مژہ نے لگائی برچھی ادھر نگاہوں نے تیر مارے
شکست دی فوج صبر دل کو یہ کس نے آنکھیں لڑا لڑا کر
کٹی ہے گویا شب جوانی بس آن پہنچی ہے صبح پیری
بہت سی کی تو نے بت پرستی اب ایک دو دن خدا خدا کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |