دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
Appearance
دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
بتوں کے عشق میں یاد خدا سے کچھ نہ ہوا
میں ایک کیا ہوں سبھی با وفا ہیں شاکئ جور
تم ایک کیا ہو کسی بے وفا سے کچھ نہ ہوا
بھری تو تھی مگر اپنے اثر کو لا نہ سکی
گئی تو تھی مگر آہ رسا سے کچھ نہ ہوا
وہ آرزو ہوں کہ جس آرزو کی کچھ نہ چلی
وہ مدعا ہوں کہ جس مدعا سے کچھ نہ ہوا
یہی سہی کہ خوشی سے ملے ملے تو سہی
یہی سہی کہ ہماری دعا سے کچھ نہ ہوا
وہ ایک ہم کہ جو چاہا کیا وصال کی رات
وہ ایک تم کہ تمہاری حیا سے کچھ نہ ہوا
انہیں بلا کے تصور میں ہم ملے مضطرؔ
ہوس تو ہو گئی پوری بلا سے کچھ نہ ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |