Jump to content

دلائل سے خدا تک عقل انسانی نہیں جاتی

From Wikisource
دلائل سے خدا تک عقل انسانی نہیں جاتی
by مخمور دہلوی
323877دلائل سے خدا تک عقل انسانی نہیں جاتیمخمور دہلوی

دلائل سے خدا تک عقل انسانی نہیں جاتی
وہ اک ایسی حقیقت ہے جو پہچانی نہیں جاتی

اسے تو راہ میں ارباب ہمت چھوڑ دیتے ہیں
کسی کے ساتھ منزل تک تن آسانی نہیں جاتی

کسے ملتی ہیں وہ آنکھیں محبت میں جو روتی ہیں
مبارک ہیں وہ آنسو جن کی ارزانی نہیں جاتی

ابھرتا ہی نہیں دل ڈوب کر بحر محبت میں
جب آ جاتی ہے اس دریا میں طغیانی نہیں جاتی

گدائی میں بھی مجھ پر شان استغنا برستی ہے
مرے سر سے ہوائے تاج سلطانی نہیں جاتی

مقیم دل ہیں وہ ارمان جو پورے نہیں ہوتے
یہ وہ آباد گھر ہے جس کی ویرانی نہیں جاتی

کچھ ایسا پرتو حسن ازل نے کر دیا روشن
قیامت تک تو اب ذروں کی تابانی نہیں جاتی

کچھ ایسے برگزیدہ لوگ بھی ہیں جن کے ہاتھوں سے
چھڑا کر اپنا دامن پاک دامنی نہیں جاتی

ہجوم یاس میں بھی زندگی پر مسکراتا ہوں
مصیبت میں بھی میری خندہ پیشانی نہیں جاتی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.