دلبری ہر بوالہوس کی حد سیں افزوں مت کرو
Appearance
دلبری ہر بوالہوس کی حد سیں افزوں مت کرو
مفلس بے قدر کوں یک پل میں قاروں مت کرو
مت چڑھاؤ آستیں تم قتل کرنے پر مرے
اپنے دامن کوں عبث آلودۂ خوں مت کرو
مہربانی کی طرح پہلی نہ بھولو یک بیک
بیت ابرو کوں تم اپنی تازہ مضموں مت کرو
لذت مستی اگر دل کوں تمہارے ہے عزیز
جب تلک دیوانہ ہوئے تب لگ فلاطوں مت کرو
اپنے عاشق کوں دکھاؤ جلوۂ ایماں فریب
عقل کی رکھتا ہے بو زاہد کوں مجنوں مت کرو
کر دیے ہیں عاشقوں نے خون اپنے کوں سبیل
پنجۂ نازک کوں مہندی لالہ گلگوں مت کرو
چھوڑ دیو تا آتش حسرت میں جل کر خاک ہوئے
لاشۂ عاشق کوں مرنے بعد مدفوں مت کرو
عاشقوں کوں اس دوبالا کیف کی برداشت نئیں
خط کی سبزی لب کی شکر ساتھ معجوں مت کرو
خود بخود بے خود ہوا ہے دیکھ کر تم کوں سراجؔ
اس قدر ناز و ادا کا سحر و جادو مت کرو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |