دل بھر آیا پھر بھی راز دل چھپانا ہی پڑا
Appearance
دل بھر آیا پھر بھی راز دل چھپانا ہی پڑا
سامنے اس بد گماں کے مسکرانا ہی پڑا
وہ جو روٹھے میں نے بھی کھا لی نہ ملنے کی قسم
پھر نہ دل مانا تو خود جا کر منانا ہی پڑا
اف ری مجبوری مزاج یار میں ہو کر دخیل
راز داں خود اپنے دشمن کو بنانا ہی پڑا
مجھ کو فصل گل میں تیور دیکھ کر صیاد کے
آشیانہ چھوڑ کر گلشن سے جانا ہی پڑا
ضبط کا یارا نہیں صیاد کا بھی ہے خیال
نالۂ دل سوز کو نغمہ بنانا ہی پڑا
روکتے کب تک تقاضائے تلافیٔ ستم
سر جھکائے شرم سے میت پہ آنا ہی پڑا
آج انجمؔ مسکرا کر اس نے پھر دیکھا مجھے
شکوۂ جور و جفا پھر بھول جانا ہی پڑا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |