دل بہت تنگ رہا کرتا ہے
Appearance
دل بہت تنگ رہا کرتا ہے
رنگ بے رنگ رہا کرتا ہے
حسن میں تیرے کوئی عیب نہیں
قبح میں دنگ رہا کرتا ہے
صلح کی دل سے ہیں یاں مصلحتیں
واں سر جنگ رہا کرتا ہے
محتسب کو ترے مستانوں سے
خوف سرچنگ رہا کرتا ہے
دل مرا پی کے محبت کی شراب
نشہ میں بھنگ رہا کرتا ہے
فارسی عار ہے مجھ مجنوں کو
ننگ سے ننگ رہا کرتا ہے
جوہر تیغ دکھاتا ہے حسن
عشق چورنگ رہا کرتا ہے
گفتنی حال نہیں ہے اپنا
کچھ عجب ڈھنگ رہا کرتا ہے
حلب رخ میں ترے خالوں سے
لشکر زنگ رہا کرتا ہے
منزل گور کے دیوانوں کے
سینہ پر سنگ رہا کرتا ہے
عالم وجد ترے مستوں کو
بے دف و چنگ رہا کرتا ہے
فندق دست صنم سے نادم
گل اورنگ رہا کرتا ہے
تیرے گوش شنوا کا مشتاق
ہر خوش آہنگ رہا کرتا ہے
بندش چست سے تیری آتشؔ
قافیہ تنگ رہا کرتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |