دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر
دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر
اس قافلہ کو پیاس نے مارا ہے چاہ پر
گیسو کو ناز ہے دل روشن کی چاہ پر
پروانہ یہ چراغ ہے مار سیاہ پر
نیند اڑ گئی گراں ہے یہ شب رشک ماہ پر
بجلی نہ کیوں فلک سے گرے میری آہ پر
ہے یاد خفتگان زمیں کا جو خط سبز
بھولے سے میں قدم نہیں رکھتا گیاہ پر
لٹتا ہے خانۂ دل عاشق بچایئے
بگڑی ہوئی ہے فوج مژہ کس گناہ پر
تاثیر کا ہے خوف انہیں عین شوق میں
ہے دل پہ ہاتھ کان ہیں آواز آہ پر
محشر بپا ہے بند ہیں کشتوں کے راستے
قد باڑھ پر ہے باڑھ ہے تیغ نگاہ پر
کیا آدمی کی خاک کو روندوں میں رحم دل
روتا ہے پائمالیٔ مردم گیاہ پر
کہتے ہو کس کے قلب میں اٹھتا ہے شب کو درد
روتا ہے دل مرا مرے حال تباہ پر
آخر تلاش گور ہوئی دل کو عشق میں
برسوں تباہ ہو کے اب آیا ہے راہ پر
دل کے معاملہ میں نہ ہو دخل غیر کو
لینا جو ہو تو لیجئے اپنی نگاہ پر
اوپر کی سانس لینے کا آزار ہو گیا
جس کی نظر پڑی تری ترچھی نگاہ پر
بخیہ جراحت دل نازک مزاج کا
موقوف ہے حضور کے تار نگاہ پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |